29 ستمبر کا واقعہ : پاکستانی کشمیر میں مسلم کانفرنس اور عوامی ایکشن کمیٹی میں کشیدگی دوبارہ سر اُٹھانے لگی

مظفرآباد/کاشگل نیوز

29 ستمبر کو جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) کی پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے نے ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک ہوا تھا، جس پر عوامی ایکشن کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے پُرامن مظاہرین پر مسلم کانفرنس کے کارکنان نے براہِ راست فائرنگ کی تھی۔

29 ستمبر کی ہڑتال سے دو روز قبل مسلم کانفرنس کی جانب سے مظفرآباد میں "امن مارچ” کا اعلان کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے مقتول کی میت کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے چہلہ چوک میں دھرنا دیا اور مقدمہ درج ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں، مسلم کانفرنس کے چیف آرگنائزر راجہ ثاقب مجید سمیت نامعلوم افراد کے خلاف تھانہ صدر میں مقدمہ درج کیا گیا۔

تاہم، گزشتہ روز مسلم کانفرنس کے چیف آرگنائزر راجہ ثاقب مجید نے ایک انٹرویو کے دوران اہم انکشاف کیا ہے کہ جس مقام پر واقعہ پیش آیا اور جس تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا، وہ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ راجہ ثاقب نے مزید بتایا کہ 29 ستمبر کے واقعے سے متعلق ایک ایف آئی آر مسلم کانفرنس کی جانب سے تھانہ سٹی میں بھی درج کروائی گئی ہے، جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔ اس ایف آئی آر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کور ممبر شوکت نواز میر سمیت دو ہزار افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

دوسری جانب JAAC کے کور ممبر فیصل جمیل کشمیری کا کہنا تھا کہ وفاقی مصالحتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے دوران یہ طے پایا تھا کہ 8 مئی 2024 سے 4 اکتوبر 2025 تک ایکشن کمیٹی کے خلاف درج تمام ایف آئی آرز کو ختم کیا جائے گا۔ ایسے میں ایک نئی ایف آئی آر کا اندراج خطے میں دوبارہ کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ روز اپراڈہ لال چوک میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اظہار تشکر پروگرام سے کور ممبران نے کہا کہ مسلم کانفرنس کے کارکنان کی جانب سے ہمارے پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی گئ جس باعث ایک شہری جاں بحق جب کہ متعد زخمی ہو ۓ تھے ہمارا مطالبہ ہے کہ صدیر اعوان کے قاتلوں کو فل فور گرفتار کیا جائے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، تازہ قانونی کارروائی اور الزامات کے تبادلے سے خطے میں امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت اختیار کر سکتی ہے، جس کے اثرات عوامی فضا اور آئندہ سیاسی سرگرمیوں پر بھی مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

Share this content: