آئین ساز اسمبلی کیوں ضروری ہے؟ | شعیب صدیق باغی

پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر (جسے ہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے ناموں سے جانتے ہیں دراصل ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں دریا بہتے ہیں مگر قانون رک چکا ہے، جہاں پہاڑ بلند ہیں مگر اختیار پست۔ یہاں کی ہوا میں آزادی کے نعرے ہیں مگر ان کے بیچ کوئی آئین اپنی صورت ڈھونڈ رہا ہے۔ آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ دراصل اس خواب کی بازیافت ہے وہ خواب جو 1947 کی شورش میں جاگ اٹھا تھا اور آج بھی اپنی تعبیر کا منتظر ہے۔

تاریخ کا جبر یہ ہے کہ جس لمحے برصغیر آزادی کے نعرے سے لرز رہا تھا، اُسی لمحے ریاست جموں کشمیر ایک نئے غلامی کے جال میں جکڑ لی گئی۔ مہاراجہ کی تذبذب بھری پالیسی، قبائلی لشکروں کا حملہ، اور دونوں نئی ریاستوں کے سامراجی عزائم نے ایک ایسی تقسیم جنم دی جس نے کشمیری عوام کو نہ مکمل آزاد رکھا، نہ مکمل شہری۔ آزاد کشمیر کا وجود اس تقسیم کے نتیجے میں سامنے آیا، مگر اس کے وجود کے ساتھ ہی اس کی آئینی خودمختاری بھی محدود کر دی گئی۔

انگریز سامراج کے قوانین اگرچہ ظاہری طور پر 1947 میں ختم ہوئے، مگر ان کی روح اب بھی زندہ ہے۔ استعماری قانون کا یہ تسلسل آج آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نظام میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ وہی "حکومتِ بالا”، وہی "وفاقی منظوری”، اور وہی "اجازت نامے”۔ جیسے انگریز رعایا کو قانون کے نام پر محکوم رکھتے تھے، ویسے ہی آج یہاں کے عوام کو آئین کے نام پر خاموش رکھا جا رہا ہے۔ یہاں کے قانون عوام کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ وزارتوں اور نوٹیفیکیشنوں سے جنم لیتے ہیں۔ یہی استعماری جبر کی نئی شکل ہے جب قانون محکوم کے لیے نہیں، حاکم کے تحفظ کے لیے لکھا جائے۔

آزاد کشمیر کا 1974 کا عبوری آئین اور گلگت بلتستان کا 2018 کا آرڈر دونوں اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ خطے ابھی تک اپنی آئینی شناخت سے محروم ہیں۔ یہ آئین نہیں بلکہ استعماری فرمان ہیں، جن میں آزادی کی خوشبو کم اور تابع داری کی بو زیادہ ہے۔ ان دستاویزات نے عوام کو نمائندگی کا دھوکہ تو دیا مگر اختیار سے محروم رکھا۔ جیسے کسی قیدی کو قلم تو دے دیا جائے مگر صفحہ چھین لیا جائے۔

گلگت بلتستان میں گورنر وفاقی نمائندہ ہوتا ہے، عدلیہ وفاق کے ماتحت، اور اسمبلی کی قراردادیں محض رسمی اظہار۔ مظفرآباد میں عبوری آئین کی دیوار پر خود ارادیت کا نعرہ تو لکھا ہے مگر دروازہ ہمیشہ اسلام آباد کی منظوری سے کھلتا ہے۔ یہ وہ جبری قانون ہے جو غلامی کو آئینی درجہ دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر نسل میں بغاوت کی ایک نئی صورت جنم لیتی ہے کبھی بندوق، کبھی نعرہ، کبھی تحریر۔

آٹھ دہائیوں کی مزاحمت محض جنگ کی داستان نہیں، بلکہ یہ شعور کی ارتقائی کہانی ہے۔ پہلی نسل نے بندوق اٹھائی، دوسری نے سیاسی جماعتیں بنائیں، تیسری نے قلم تھاما۔ اور اب کی نسل سوال اٹھا رہی ہے "ہماری زمین کا قانون کون لکھے گا؟” یہ سوال دراصل آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مقدمہ ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر گلی، ہر پہاڑی اور ہر یونیورسٹی کے کمرے میں گونج رہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ ہر سامراج اپنی بندوقوں سے نہیں بلکہ بیانیے سے حکومت کرتا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی سامراجی پالیسیوں کا قبضہ بندوق سے زیادہ بیانیے کے ذریعے ہے۔ یہاں عوام کو "قومی مفاد” کے نام پر خاموش رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ تعلیم کا نصاب سوال سے خالی، میڈیا کی زبان بند، اور سیاست کی رگوں میں وفاداری کی شرط دوڑ رہی ہے۔ یہ وہ خاموش جبر ہے جو ہر خودمختار سوچ کو "حساس موضوع” بنا دیتا ہے۔ یہی نوآبادیاتی نفسیات ہے جس میں غلام اپنی زنجیر کو زیور سمجھنے لگتا ہے۔

آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ دراصل اسی نفسیاتی محکومی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب رعایا قوم بننے کا فیصلہ کرتی ہے۔ آئین سازی کا حق مانگنا دراصل اپنی فکری خودمختاری کا اعلان ہے۔ یہ کہنا کہ "ہم اپنے قانون خود بنائیں گے” سامراجی طاقتوں کے لیے سب سے خطرناک جملہ ہے، کیونکہ یہی جملہ جبر کے تمام قلعے ہلا دیتا ہے۔

گلگت بلتستان کی کہانی بھی اسی درد سے بھری ہے۔ وہ خطہ جس نے 1947 میں ڈوگرہ راج کے خلاف علمِ آزادی بلند کیا، آج خود آئینی غلامی میں مبتلا ہے۔ ان کے نوجوان سوال کرتے ہیں: "اگر ہم پاکستان کے شہری ہیں تو ہمیں حقِ نمائندگی کیوں نہیں؟ اور اگر ہم ریاستِ جموں کشمیر کا حصہ ہیں تو ہماری آواز آئین ساز اسمبلی میں کیوں نہیں گونجتی؟” یہ سوال کسی غداری کا نہیں، بلکہ وفاداری کے نئے معنی تلاش کرنے کا ہے ایسی وفاداری جو قوم کے ساتھ ہو، کسی مرکز کے ساتھ نہیں۔

استعماری پالیسیوں کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ ظلم کو "ترقی” کے نام پر چھپاتی ہیں۔ سی پیک کے منصوبے، ترقیاتی آرڈرز، اور سرمایہ کاری کے وعدے دراصل نئے انداز میں جغرافیائی استحصال کے ہتھیار ہیں۔ یہاں زمین عوام کی نہیں، بلکہ منصوبوں کی ملکیت بن چکی ہے۔ پہاڑوں کی خاموشی کے پیچھے معاہدوں کا شور چھپا ہوا ہے۔ سامراج اب بیرونی نہیں رہا وہ اندر سے سوچ میں داخل ہو چکا ہے۔

آئین ساز اسمبلی اس ذہنی اور قانونی غلامی کے خلاف قلم کی مزاحمت ہے۔ یہ اسمبلی محض قانون سازی کا فورم نہیں بلکہ عوامی شعور کی نمائندہ ہوگی۔ یہاں ریاست کے مستقبل پر فیصلہ عوام خود کریں گے، نہ کہ وزارتِ امورِ کشمیر یا کسی غیر منتخب ادارے کے دستخط سے۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب "آزاد کشمیر” کا لفظ اپنی معنویت پائے گا، اور گلگت بلتستان اپنی شناخت۔

ادب نے ہمیشہ سیاست سے پہلے سچ کہا۔ کشمیر کی مزاحمتی شاعری، افسانہ نگاری اور نثری تحریریں اس شعور کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ فیض کا وہ شعر یہاں کی فضا میں گونجتا ہے
"نہ اب کوئی نام رہے گا، نہ کوئی نشاں رہے گا،
جو بھی یہاں سے اٹھے گا، وہ اپنی پہچان رہے گا۔”

یہی پہچان آئین ساز اسمبلی کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ قانون کے بغیر آزادی ایک صدا ہے جس کا جواب نہیں ملتا۔

آئین سازی کی تحریک کو بندوق کی گولیوں سے دبایا جا سکتا ہے، مگر شعور کی چنگاری کو نہیں۔ یہ چنگاری اب مظفرآباد کے ادیب کے قلم میں، گلگت کے طالب علم کے نعرے میں، اور باغ کی ماں کی آنکھوں میں ہے جو اپنے بیٹے سے کہتی ہے "اب لفظوں سے لڑو، ہتھیاروں سے نہیں۔” یہی وہ مزاحمتی ارتقاء ہے جو محکومی سے خودمختاری کی طرف سفر کر رہا ہے۔

آئین ساز اسمبلی دراصل اس طویل مزاحمت کا سیاسی اظہار ہے وہ لمحہ جب تاریخ قلم کے سامنے سر جھکاتی ہے۔ یہ اسمبلی ماضی کے زخموں پر مرہم بھی ہے اور مستقبل کے نقشے کی پہلی لکیر بھی۔ یہ وہ قدم ہے جو استعماری تسلسل کو توڑے گا، جبری قوانین کو منسوخ کرے گا، اور سامراجی پالیسیوں کے خلاف عوامی اختیار کو بحال کرے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ریاستِ جموں کشمیر کے اس حصے میں آزادی کا مفہوم نعرے سے نکل کر قانون میں ڈھلے۔ کیونکہ جو قوم اپنے آئین کی مالک نہیں، وہ اپنی زمین کی مالک بھی نہیں رہتی۔ آئین ساز اسمبلی کا قیام اس خطے کی بقا نہیں بلکہ اس کی پہچان کا سوال ہے۔ یہ اعلان ہے کہ ہم وہ رعایا نہیں جو اجازت سے بولے ہم وہ قوم ہیں جو اپنے قانون سے جئے۔

جموں کشمیر کے پہاڑ آج بھی فضا میں ایک ہی صدا بکھیر رہے ہیں
"ہماری زمین، ہمارا قانون، ہمارا اختیار!”
اور یہی صدا اس خطے کے آئندہ باب کی بنیاد بننے والی ہے۔
جہاں قانون جبر سے نہیں، عوام کی رضا سے لکھا جائے گا
جہاں آئین کسی وزارت کا نہیں بلکہ عوامی شعور کا آئینہ ہوگا
اور جہاں آزادی، آخرکار، اپنے پورے معنی میں زندہ ہوگی۔

Share this content: