جب کوئی انسان کسی عظیم مقصد کے لئے سوچنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اس عظیم مقصد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے یا دوسروں کی دی ہوئی من و عن صورت حال کو للکارتاہے، ظلم غلامی اورنا انصافی کے لیے جدوجہد کا آغاز کرتا ہے تو وہ امید اور حوصلے کی ایک موہوم سی روشنی کی لہر بھیجتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ یہ لہر ایک طوفان کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو غلامی ظلم اور نا انصافی کی دیوہیکل دیواروں کو پاش پاش کر دیتی ہے۔
لیکن وہ معاشرے جو رجعتی خیالات کی دلدل میں پوری طرح لتھڑجاتے ہیں تو وہاں سیاسی معاشی ثقافتی اور معاشرتی طور پر ایسی نفسیات مسلط کر دی جاتی ہے کہ لاعلمی اور جہالت کے اندھیرے میں سفر کرنا زاد ے راہ بن جاتا ہے اور من گھڑت تاریخی تاویلات اور خودساختہ خیالات معاشرے کا حاوی روجحان بن جاتا ہے اور معاشرہ ایک ایسی جکڑ بندی کا شکار ہو جاتا ہے جہاں تاریخی سچایاں دبیر پردوں میں چھپ جاتی ہیں۔
جن کو آشکار کرنے کے لیے جہاں ایک طرف جرات تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پر ایک مضبوط سیاسی بیانیہ تنظیم اور تحر یک کی بھی اسی طرح کی ضرورت ہے جس طرح انسانی جسم کے لیے خون کی گردش لازمی اور ناگزیر ہوتی ہے اسی تناؤ میں ریاست جموں کشمیر کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو نتائج نظریاتی ابہام اور فکری انتشا رکی صورت میں سامنے نظر آتے ہیں جو اس تقسیم شدہ ریاست میں ہم آہنگ قومی تحریک کی تشکیل میں نہ صرف رکاوٹ ہے بلکہ اس کی جدوجہد کو بھی تبدیل کر کے ا س کو بلا واسطہ نفرت کی بنیاد پر مذہبی فرقہ وارانہ تشدد کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں ۔
جولا محالہ ریاست کی وحدت کی بحالی اور تشکیل نو کے لئے آزادی کے حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو قومی تحریک کی شکل دینے میں پوری طرح نہ صرف ناکام ہوئی ہے بلکہ اس پر متروک مستردخیالات کی حامی قوتیں حاوی ہو گئی ہیں جو مذہبی انتہا پسندی سے لے کر بنیاد پرست قوم پرستی اور الجھی ہوئی ترقی پسند ی سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں جب کہ ریاست اور اس کے عوام دن بدن نہ صرف بے اختیار ہو رہے ہیں بلکہ ایک ایسی بے یقینی کا شکار ہو رہے ہیں جو شکست خوردہ مایوسی اختیار کر رہی ہے۔
ان چند الفاظ کی غرض و غائت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ہم جدید دور کے ان تقاضوں کے تحت تحریک تنظیم اور اس کی ضرورتوں کا جائزہ لے سکیں جو قومی آزادی کی تحریک کی تشکیل کے لئے لوازمات اور تقاضوں کو ہم آہنگ کر سکے کیونکہ تحریکوں کی واحد پہچان ان کی وہ نظریاتی احساس ہوتی ہے جو نہ صرف طاقت ہوتی ہے بلکہ ایک ایسا راہ عمل بھی ہوتی ہے جس پر چل کر عوام نہ صرف اپنی آزادی حاصل کر لیتے ہیں بلکہ وہ مستقبل کا ایک نیا معاشرہ اور نیا انسان تخلیق کر لیتے ہیں۔ جو ہر طرح کی عصبیت، نفرت اور بگاڑ سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم تاریخی فریضہ ہے جو جموں کشمیر کے عوام نے ادا کرنا ہے اور اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تاریخی فریضہ کی ادائیگی میں اپنا کلیدی کردار ادا کر کے ریاست کے عوام کو الجھی ہوئی صورتحال سے نجات دلانے میں رہنما کردار ادا کریں اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو یہ فرسودگی کی ایک نئی شکل بن جائے گی۔
انسان کے ارتقائی مراحل :
انسان اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرکر کے اس سطح پر پہنچا ہے۔ قدیم مشترکہ معاشرتی و معاشی زندگی سے غلامی اور جاگیر دارانہ دور عبور کرکے سرمایہ داری کی ترقی یافتہ سطح تک پہنچنے میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ انسان نے جہاں ایک طرف گمراہی، بے راہ روی،ناانصافی قتل و غارت گری اور تشدد کا سامنا کیا ہے وہیں پر انسان نے نئے بھی دریافت کیے ہیں ۔ خانہ بدوش زندگی سے خاندانی، قبیلائی، علاقائی اور قومی شکل اختیار کرنے میں نہ صرف بے پناہ قربانیاں دی ہیں بلکہ قوموں کی غلامی اور سماجی نہ برابری کے نظام ہائے زندگی کو بدلنے کے لیے نئے نظریات بھی دریافت کیے اور تاریخ پر چھائے گٹھا ٹوپ اندھیروں کو چھٹک کے رکھ دیا۔ عالمی فقہاجن میں کارل مارکس سب سے نمایاں ہیں نے نہ صرف نئے نظریات تخلیق کئے بلکہ انقلاب کے ہتھوڑے سے ظالم اور استحصالی طبقات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
جدوجہد کا یہ سفر ہنوز جاری ہے کہیں پریہ بہت تیز ہے اور کہیں پر بہت سست روی کا شکار، بحر کیف جبر اور ناانصافی کے خلاف اس جنگ نے بلٓاخر جیتنا ہے۔
کائنات کے تمام مظاہر اور تاریخ اس کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور اس میں انسان کا وجود ایک حقیقت ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ارتقائی عمل کے دوران انسان کن کن مراحل اور سطحوں سے گزرا ہے لیکن یہ حقیقت طشت ازبام ہے کہ انسان نے بحیثیت انسان تہذیب،تمدن،فکر و عمل اور علم و فن کی گوناگوں حالتوں کی مسافت طے کر کے آج کے ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا ہے اور یقینی طور پر ایک ایسا سماج تخلیق کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جو لامحدود ذاتی ملکیت پر مبنی جبر،استحصال اور ناانصافی کے نظام کو ایک اجتماعی نظام ملکیت کو رائج کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ اشتراک پر مبنی با ہم نظام زندگی دنیا کو خوبصورت اور محبت بھرا بنا دے گا جہاں پر انسان باہم مل کر ایک دوسرے کے لئے جذولانفیک طور پر جینا سیکھ جائیں گے۔
کائنات کی کوئی بھی شے نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی حرف آخر کسی بھی عمل کو قطعی اور مکمل ہونے پر اصرارایک خیالی قسم کے جھوٹ ہیں جو الوہیت اور اور ماورائیت کی تاریک غاروں میں پنپتے ہیں۔ ان تاریک غاروں میں ظاہر ہے بہت زیادہ دیر نہیں رہا جاسکتا۔ بہرحال یہ ایک مختصر گفتگو تھی۔ اب ہم ان سوالات کو دیکھنے کی کوشش کریں گے جو ریاست جموں و کشمیر کا قیام تشکیل تقسیم اور اس کی وحدت کی بحالی کی تحریک کا قومی شکل اختیار نہ کرنا بنیاد پرستی اور قابض ریاستوں کی جکڑبندی نے جہاں ایک طرف گہری مایوسی اور ناامیدی کو جنم دیا ہے وہیں پر اہل عقل و شعور کو یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ کسی ایک ایسے نقطہ نظر پر غور و فکر کا آغاز کریں جو ریاست کے تمام حصوں کے عوام کے درمیان ایک ایسے سماجی معاہدے کی تشکیل کر سکے جو ریاست کی عوام کو باہم جوڑ دے۔
تاریخ کا کا اجمالی منظرنامہ:
تاریخ کی طویل سفر میں چیزیں اور واقعات بعض اوقات دھندلا جاتی ہیں یا پس منظر میں دھکیل دی جاتی ہیں، اور ایسا ہی ریاست جموں کشمیر کے ساتھ ہواہے اور ابھی تک ہو رہا ہے۔ بہت زیادہ پسماندہ سماجوں میں مسخ شدہ واقعات عوام کے لئے سچ بن جاتے ہیں یہی کچھ ریا ست جموں کشمیر میں بھی ہوا ہے گو اب اس پر سے پردے ہٹ رہے ہیں۔
برطانوی سلطنت کی نمائندہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے درمیان 16مارچ 1846 کو ہونے والے معاہدے جو معاہدہ امرتسر کہلاتا ہے،جو پنجاب حکومت اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی جنگ میں شکست خوردہ پنجاب پر تاوان جنگ عائد کیا گیاشکست خوردہ پنجاب حکومت اس کو ادا کرنے سے قا صررہی یا کوئی اور وجہ بنی ہو۔ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے تاوان کی رقم ادا کرنے کے حامی بھری بدلے میں وادی کشمیر ” جو پہلے سے ہی پنجاب دربار کی ماتحت تھی "گلاب سنگھ کی عملداری میں دے دیگئی یہ وہ پہلی بنیاد تھی جس سے ریاست جموں و کشمیر کے قیام یا تشکیل کا آغاز ہوا۔
ازا ں بعد راجہ گلاب سنگھ نے لداخ گلگت اور جموں سے ملحقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا جاگیروں کو اپنی عمل داری میں لیا جس کے لیے طاقت کے استعمال سے لے کر بات چیت کرنے سمیت سارے راستے اختیار کئے گئے یوں یہ ریاست تشکیل پائی جموں کے راجہ گلاب سنگھ را جہ سے مہاراجہ کی شکل اختیار کر گئے اور اس وقت کے کہ مروجہ نظام حکومت کے تحت وہ ایک بادشاہت تھی جس میں اختیارات مہاراجہ یا بادشاہ کے پاس ہوتے ہیں گلاب سنگھ کا ترتیب دیا ہوا نظام حکومت نہ تو کوئی جمہوری نظام تھا اور نہ ہی کوئی عوامی لیکن ایک نوزائیدہ ریاست کے طور پر پر اس کا سفر شروع ہوا جو مکمل طور پر تو نہیں لیکن کسی حد تک برطانیہ کے کنٹرول میں تھا ااس کے اندرونی نظام حکومت میں برطانیہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
مہاراجہ گلاب سنگھ کے جانشینوں نے ریاست کو اسی طرح متحد رکھا جس طرح اس کی تشکیل ہوئی تھی تفصیل میں جائے بغیر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ریاست کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک جہاں دیدہ دور اندیش حکمران کے طور پر ریاست میں بہت سی اصلا حات کی ان میں ریاستی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا قیام باشندہ ریاست کے قوانین سمیت تعلیم اور دوسری اصطلاحات شامل ہیں گو کہ یہ سب ناکافی تھے لیکن ایک اصلاحاتی تبدیلی کا آغاز ہو چکا تھا جو آنے والے وقت میں ریاست کے عوام کے لئے بہتر اور سود مند ہو سکتا تھالیکن کوتا اندیش ریاست کی مسلمان لیڈر شپ وقت سے پچھڑی رہی کہ برصغیر کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا،جس کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملک بن گئے اس تلاطم خیز ماحول میں بھی ریاست کے آخری حکمران نے ریاست کو آزاد و خودمختار رکھنے کی پوری کوشش کی جس میں ناکامی ہوئی (عسکری طور پرمہا راجہ کے پاس کم وپیش نو بٹالین فوج اور ایک بٹالین رسالہ دار تھے جو کل ملا کر تقریبا دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں اکثریت غ راجپوتوں کی تھی جب کہ مسلمانوں کی اس میں تعداد کم تھی۔ جبکہ پونچھ اور میرپور کے لوگوں کی ایک بڑی تعدادبرٹش انڈین آرمی میں تھے)
بحر حال مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بقائے باہمی کی غرض سے معاہدات کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے ساتھ ایک پرامن رہنے کا معاہدہ کر بھی لیا جبکہ ہندوستان نے لعیت ولعل سے کام لیا۔ اسی معاہدے کی موجودگی میں پاکستان نے تمام قواعد اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 22 اکتوبر 1947 کو حرص لالچ اور دھوکہ دہی سے پختونخوا سے تعلق رکھنے والے معاشی بدحالی کا شکار پختونوں کے ذریعے ریاست پر حملہ کروا دیا مقامی مسلم آبادی اور لیڈروں کی طرف سے حملہ آوروں کو مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے مقامی غیر مسلم آبادی کو انتہائی بے دردی سے تہہ تیغ کیا گیاان کی املاک کو لوٹ لیا گیاگھروں کو جلا دیا گیا خواتین کی بے حرمتی اور اغوا کرلیا گیا یہ سب کچھ پاکستانی فوج کی سربراہی میں ہو رہا تھا سوائے محدود چند لوگوں کے (پونچھ میر پور اور وادی کے ایک محدود حصے)کسی نے اس قتل عام کی مذمت یا مخالفت نہیں کی۔
اس حملے کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ میں بے دست و پا ہوگئے بے بسی اور مجبوری کے عالم میں ان کو ہندوستان سے مدد کی اپیل کرنا پڑی جس کو ہندوستان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پہلے ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کا معاہدہ کرو پھر فوجی مدد فراہم کی جائے گی چاروناچار ایک مشروط الحاق کا معاہدہ کیا گیا جس کا خاتمہ 5 اگست 2019 کو حکومت ہندوستان نے یک طرفہ طور پر کردیا یوں ریاست کاایک حصہ ایک اور تقسیم کا شکار ہو گیا۔
انیس سو سینتالیس کی پرآشوب صورتحال میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ریاست کو متحد رکھنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات تھیں، لیکن سب سے بڑی وجہ نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس جیسی سیاسی جماعتوں کا مہاراجہ مخالف مؤقف تھا، جو درحقیقت ریاست مخالف بیانیے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ان جماعتوں نے ہندوستان اور پاکستان کے اشاروں پر مہاراجہ کی پیشکشوں کو مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں ریاست نہ صرف تقسیم ہو گئی بلکہ اس کے مختلف حصوں کے عوام کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت کی ایک گہری خلیج بھی پیدا ہو گئی، جو آج تک برقرار ہے۔
انیس سو سینتالیس کی تقسیم کے بعد آزاد جموں و کشمیر(جس میں پونچھ اور میرپورجو جموں صوبے کا حصہ ہے اور کچھ حصہ وادی کشمیر کا شامل ہے)اور گلگت بلتستان پر پاکستان نے اپنے قبضے کو زیادہ مستحکم اور مضبوط کرلیا جس میں مسلم کانفرنس (جو پہلے سے ہی پراکسی کردار ادا کر رہی تھی) کا بنیاد ی کردار ہے۔ جس طرح کی صورتحال کا آزاد جموں و کشمیر کو سامنا ہے اس کی کی کلیتاََ ذمہ داری پاکستان کی حمایت یافتہ انہی عناصر پر عائد ہوتی ہے جو 1947 میں ریاست کی تقسیم اور بے گناہ معصوموں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے یہ تھا ایک مختصر سا منظر نامہ گو کہ یہ ایک بڑی تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے لیکن موجودہ صورت حال میں یہ مختصر اجمالی منظرنامہ مستقبل کی طرف سفر میں معاون اور مفید ثابت ہوگا۔
قومی تحریک کی تشکیل مشکلات رکاوٹیں اور امید:
ریاست جموں و کشمیر جن حالات میں تقسیم ہوئی اس کے بے شمار اسباب و علل ہیں لیکن ریاست کے عوام میں دوری تفاوت اور خلیج کی بنیاد وہ فرقہ وارانہ مذہبی منافرت ہے جس نے خیالات و الفاظ کے معنی ہی بدل دیے جہاں آزادی کو غداری کے زمرے میں گردانا گیا ریاست کی وحدت کے سوال کو اسلام اور پاکستان دشمنی قرار دیا گیا۔عقیدے کی بنیاد پر جس منظم انداز میں نفرت کو بڑھا دیا گیا کہ ریاست کی مجموعی آبادی ایک دوسرے سے نہ صرف دور ہوگئی بلکہ ان کی سوچ، خیالات اور سیاسی عمل میں ایسی تفاوت پیدا کردی کہ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے لوگوں کا سماجی ڈھانچہ نیست و نابود ہوگیا سونے پر سہاگہ یہ کہ تقسیم کے بعد ایک منظم انداز سے جبر طاقت دھونس دھندلی خوف اور لالچ کے حربوں سے پورے سماج کو منتشر کر دیا۔
مسلم بنیاد پرستی کی سوچ پر مبنی پاکستانی ریاست نے ہندوستانی انتظام والی ریاست میں مسلم اکثریتی حصے یعنی وادی کشمیر میں متروک نظریات کو اپنے ہوس ملک گیری کے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے ایک بلاواسطہ فرقہ وارانہ جنگ کے ذریعے مفلوق الحال عوام کی زندگیوں کو تباہ کیا وہیں پر ان کی معاشی سیاسی اور سماجی ابتری میں بے پناہ اضافہ کر دیا جس کو بھارت کے حکمرانوں نے ایک فائدہ مند ہتھیار کے جواز کے ساتھ معصوم انسانوں کوتہہ تیغ کیا اور دوسری طرف پاکستان کے بھیجے ہوئے خدا کی سپاہیوں نے مقامی آبادی کو نہ صرف آبائی وطن کو چھوڑنے پر مجبور کیا بلکہ ان کی زندگیاں بھی چھین لی جبکہ ریاست کا ایک چوتھائی حصہ جو آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی صورتحال پہلے سے بھی بدتر کردی گئی شروع سے ہی ان کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا لوگوں کی معاشی پسماندگی اوردور افتادگی کی مجبوری سے ان کو نفسیاتی طور پر اپا ہج کر دیا گیا اور ان کی تاریخ کو مسخ کر دیا گیا بیرونی حملہ آوروں او ر لٹیروں کو ہیرو بنا کر پیش کر دیا گیا ۔
ایک ایسا نظام تعلیم واضح کیا گیا جو جھوٹ اور فریب دہی پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی عوام کے مذہبی جذبات کی حساس وابستگی کو دھوکہ دہی سے استعمال کیا گیا جس سے معاشرہ نچلی پرتوں تک برباد ہو گیا۔ معاشی سیاسی سماجی اور نظریاتی بنیادوں کو مسخ کرکے ان کو پاکستان کی غلامی کو تسلیم کرنے پر مائل اور راغب کرنے نےکے سارے ہتھکنڈے استعمال کئے قومی اور جمہوری مطالبات کو جرم قرار دیا گیا انیس سو سینتالیس کے بیرونی حملہ آوروں کو ہیروبنا کر پیش کیا گیا جبکہ وہ قاتل وحشی انسان دشمن درندے تھے۔
یوں آزادجموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپاہج و بے دست وپا کر دیا گیا ٰ ہر وہ سوچ اور خیال جو ریاست کی وحدت اور عوامی حقوق پر مبنی تھی اس کو کچل کر رکھ دیا انیس سو سینتالیس کی تقسیم کے فوراََبعد ہی عوام نے قبضہ گیرکے خلاف بغاوت کر دی جو پونچھ کی بغاوت سے جانی جاتی ہے جس کو پاکستان نے بری طرح سے کچل دیا عوام پر بد ترین انسانیت سوز مظالم ڈھائے یہ پاکستان کا ریاست کے عوام پر دوسرا حملہ تھا لیکن عوام کی اس بہادر جدوجہد کو تاریخ کے اوراق سے محو کردیا گیا او ر خوف کا عالم یہ ہے کہ آج بھی لوگ اس پر بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
دوسری طرف قابض قوتوں نے لوگوں کو خوف زدہ اور اپنی سرزمین سے لا تعلق رکھنے کے لیے ایسے رہنما تخلیق کرنے شروع کر دئے جو نہ تو عوام کے وفادار تھے اور نہ ہی ریاست کے وہ بس چاکری کا دم بھرتے رہے یوں ریاست کے اس خطے میں بے چارگی اور بے یقینی کے خوف نے ایک طرح کا نظریاتی انتشار اور فکری ابہام پیدا کر دیا کہ ریاست کا یہ حصہ جو پاکستان کے قبضے میں ہے یہ آزاد ہے اس نظریاتی انتشار اور ر فکری ابہام کو سمجھنے کے لیے آئیے دیکھتے ہیں کہ نظریہ کیا ہے اور آزادی سے کیا مراد ہے۔
نظریہ :
نظریہ خیالات کا ایک ایسا مجموعہ نظام یا بعض اوقات محض ایک ذہنی کیفیت یا حالت مراد لی جاتی ہے یاایک ایسا نظام جو مسائل کے حل کے لیے ایک طریقہ فراہم کرتا ہے جو انسانی آزادی و برابری کی اعلی ترین سوچ پر پر مبنی ہو نظریہ کہلاتا ہے لیکن یہ ذہن میں رہے کہ نظریہ جذبات سے عاری خیالات نہیں ہوتے اس میں لازمی طور پر احساسات شامل ہوتے ہیں مثال کے طور پر پسند ناپسند امید خوف وغیرہ ۔
محرومِ طبقات میں جہاں طبقاتی جدوجہد کے سائنسی اصول وضع کیے گئے ہیں وہاں پر آزادی سے محروم قوموں اور ریاستوں سے یکجہتی مفلوق الحال طبقوں سے محبت، ظالم کے خلاف نفرت،بغاوت اور جوش کے احساسات پر ایک نظریاتی عمارت تیار ہوتی ہے اگر ہم نظریے کے کے عمومی تاریخی کردار کی مختلف شکلوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نظریے کو تاریخ یعنی معاشرے کی مجموعی زندگی سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے بلکہ نظریے کے کردار اس کے عناصر اور شکلوں کومعاشرے کے اندر دیکھنا اور تلاش کرنا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو نظریہ ایک دیو مالائی کہانی بن جاتا ہے جو خیال پرستی یامابعد لطبیعاتی تصور بن جاتا ہے جس کا بنیادی تشکیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر ہم معاشرے کی بنیادی ساخت کا جائزہ تاریخ کے مادی تسلسل کی روشنی میں لیں تو واضح ہوتا ہے کہ معاشرے کی بنیاد اس کا معاشی ڈھانچہ ہے جس کے اوپر ایک سماجی ڈھانچہ سیاسی ڈھانچہ کو تھامے ہوا ہوتا ہے جس کی سب سے زیادہ طاقتور قوت نظریاتی ڈھانچہ ہوتا ہے۔
اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے انسان لازمی طور پر سماجی پیداوار کے رشتے قائم کرتا ہے جو ان کی خواہشات اور ارادوں کے تابع نہیں ہوتے،اور یہ پیداواری رشتے جو پیداواری قوتوں کی ہیئت، ترقی اور معاشی ڈھانچے کی تشکیل کرتے ہیں یہی وہ اصل بنیاد ہے جو معاشرے کی مادی زندگی ا(ن کے طرز پیداوار سے سماجی سیاسی اور ذہنی زندگی) کے عمومی رویوں کو متعین کرتی ہے معاشرے کی ہر پرت میں مقابلہ، اختلاف اور تصادم کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے جس کی اول و آخر بنیاد معاشی ڈھانچہ ہے جس میں مذہب اخلاقیات سائنس شاعری اور ادب سمیت سب شامل ہوتے ہیں مادی نقطہ نظر سے خیالات اشیاء کا عکس ہوتا ہے ہمارا سماجی وجود ہمارے تصور کا تعین کرتا ہے اور سماج کاسب کا اوپر والا حصہ یا ڈھانچہ اس بنیاد کا عکس ہے جس پر افراد اور معاشرہ کھڑے ہیں جب نظریات معاشرے کے مادی حالات کا عکس ہوتے ہیں جو انسان کے سماجی وجود اور شعور کا تعین کرتے ہین لیکن اس نتیجے پر پہنچ جانا کے محکوم قوم ریاست یا استحصال اور جبر کا شکار عوام محکومی،غلامی یا جبر سے چھٹکارے کے لئے خود بخود اس کو اپنا لیتے ہیں یہ ایک مفروضہ ہو گا جس کی حقیقت سے کو ئی مطابقت نہیں۔
محکوم ریاستوں اور قوموں کے اکثریتی عوام تو مخصوص حالات میں رہ رہے ہوتے ہیں اور ان حالات کے بارے میں ان کا شعورپسماند ہ ہوتا ٰہے یا مطابقت نیہں رکھتا جس کی مثال ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ لوگ رہ تو ان نئے حالات میں رہے ہیں لیکن وہ ماضی کی طرف لوٹنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ماضی کی تعریف اور حال کی شکایت کرتے ہیں جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ دی گئی یا مسلط کردہ صورت حال سے نہ تو مطمئن ہیں اور نہ خوش۔
لوگوں کے شعور میں محکومی جبر اور معاشی ابتری سے نکلنے کے لئے ماضی کی طرف لوٹ جانے کا احساس کہ ان کے مسائل حل ہو جائیں گے ایک مکمل درست شعور نہیں ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کا یہ حصہ(اے جے کے گلگت بلتستان)کے وہ لوگ جو آزادی کے حقیقی مطالبے کی حمایت تو کرتے ہیں مگر اپنے سیاسی وفاداریاں نیم قوم پرست گروہوں یا پاکستان کی تشکیل کردہ سیاسی جماعتوں کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ آزادی کے مطالبے کی حمایت سے مراد یہ ہے کہ وہ قبضہ کار کو عملی طور پر مالک تسلیم نہیں کرتے لیکن قابض کے بنائے ہوئے قوانین کے اندر رہ کر حقوق لینے پر یقین کرتے ہیں اور عمومی طور پر یہ نا تو ممکن ہے اور نہ ہی درست نقطہ نظر، یہ سوچ غلط اس لیے بھی ہے کہ نو آبادیاتی ریاستوں سے امید وابستہ کرنا ہوا میں پھونک مارنے کے مترادف ہے اور وہ یہ اس لئے کرتے ہیں کہ ا نھوں نے مسائل پر زیادہ غور نہیں کیا ہوتا اور ایک ناقص سیاسی نظریے پر کھڑ ے ہوتے ہیں۔
یہ محکوم ریاست یا قوم کا فرد ہوتے ہوئے بھی اپنی ریاست قوم اور عوام کا دشمن تو ہوسکتا ہے ہمدرد نہیں وہ غلامی اور محرومی کے اصل حالات میں غلط فہمی اور دھوکے کا شکار نہ صرف خود ہے بلکہ عوام کو بھی اس کا شکار کرتا ہے لہذا نظریہ زندگی کے حالات کا عکس تو ہے لیکن یہ خود بخود قائم ہونے والا لازمی عکس نہیں۔
اس کی مثال ہم 1947 میں رونما ہونے والے دل دوز واقعات کے پیچھے محرکات کو دیکھ کر دے سکتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ ریاست کے اس حصے کی مسلم آبادی نے بیرونی حملہ آوروں کو خوش آمدید کیوںکہا۔ اس کو دیکھنے کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ مسلمان آبادی اقتصادی طور پر انتہائی بد حالی کا شکار تھی۔ سرکاری ملازمتوں میں میں حصہ نہ ہونے کے برابر تعلیم کی شدید کمی تجارت اور کاروبار میں غیر مسلم آبادی کی اجارہ داری مذہبی اور سماجی امتیاز کے شدید احساس نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ انہوں نے بیرونی حملہ آوروں جو پاکستان سے آئے تھے کو اپنے عقیدے کی بنیادپر سہولت فراہم کی اس امید پر کہ ان کی زندگی کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی۔ یہ فقط اس کا معاشی پہلو ہے جس کی تشریح کسی حد تک درست ہے۔
لیکن اس کا قطعاً قطعاً مطلب یہ نہیں تھا کہ ریاست کو توڑ دیا جاتا بہرحال اس وقت کے حالات میں عوام او ر کوتا اندیشہ رہنما فکری پسماندگی جذباتی وابستگی اور مذہبی پروپیگنڈہ کے زیر اثر آ کر اپنے ہم وطن شہریوں کو عقیدہ کے نام بے وطن کروا کر اس حصے میں ایک حکومت ان ٹو ڈی لوگوں کی سربراہی میں قائم کی جو اپنے قد سے بھی چھوٹے تھے جنہوں نے یہاں کے عوام جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار تھے کو ایک اور اذیت ناک غلامی میں دھکیل دیا جہاں لوگ پہلے سے بھی زیادہ بے دست و پا ہو کر قبضہ گیر کے رحم و کرم پر زندہ رہنے پر مجبور ہوگئے اور یہ سب اس نظریاتی ابہام کی وجہ سے پیدا ہوا جسکے پیچھے غیرملکی طاقتوں کی سازشیں اور رسیشہ دوانیوں کی منافقت بھری تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ چیزوں کو طریقہ کار کے صحیح استعمال کرنے کا ہنر جاننا ضروری ہے اگر آپ چیزوں کو دست طور پر سمجھنے سے آشنا نہیں تو آپ کی سچائی ایک ادھورے خاکے سے آگے کی کو ئی چیز نہیں ہوگی۔ کسی تجزیہ طلب عمل کے مواد پر توجہ بغیر کسی سماجی حوالے کے مطالعے سے نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ہر چیز کو معاشی حالات کی پیداوار قرار دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے عمومی رویے پر ادب و فن کے اثرات بھی ہوتے ہیں جہاں نظریات کے اندرونی ارتقاء کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے سات ہی تراشیدہ ہیروز کے سماجی حالات ان کے معاشی و طبقاتی کردار پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ ان کا عمل اور واقعات کس سماجی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں اگر اس تجزیہ کی کوئی معقول وجہ نہ ہو تو تجزیہ ایجاد کرنے کی بجائے ترک کر دیا جائے چونکہ کسی چیز کی موجودگی ہی اس کی تشریح کی بنیاد ہوتی ہے اور تشریح ایجاد نہیں ہوتی۔
جس طرح کی صورتحال کا ریاست کے اس حصے کو سامنا ہے جو پاکستان کے زیر قبضہ ہے اور اس کے خلاف لڑنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔
1۔ عوامی مزاحمتی تحریک جو قومی تحریک کو تشکیل دے کر آگے کی طرف سفر کرے۔
2۔ایک رجعتی اور پسماندہ ماضی کے معاشرے کی روایات کے طور پر جامد اور ساکت ماحول میں لفاظی کے سہارے آگے بڑھیں۔
دوسرا طریقہ کار چونکہ ماضی کے تجربات حالات واقعات دنیا کی تیز ترین ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں نہ صرف متروک اورنا قابل عمل ہے بلکہ یہی سوچ ہماری بربادی کا سبب بنی ہے اس کو اب تیاگ دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
ایک عوامی مزاحمتی تحریک جو اپنے پہلے مرحلے میں آزاد جموں و کشمیرو گلگت بلتستان کو قومی تحریک کی تشکیل کے لیے ایسی بنیاد فراہم کر سکے۔ جو اس ریاست کے اس حصے کو قبضہ گیر کی لوٹ کھسوٹ اور وسائل پرقبضہ کے خلاف نہ صرف سوال اٹھا سکے بلکہ ایک ایسی سیاسی مزاحمتی تحریک کا آغاز کر سکے۔ جو اس کی ہوس ملک گیری کے عزائم کو چیلنج کر سکے۔
ہم تاریخ کے طویل سفر کے بعد ایک ایسے جدید عہد میں داخل ہوے ہیں کہ جہاں لوگوں ک رہن سہن سمیت سوٖٖٖچنے کے انداز میں واضح ٖتبدیلیاں پیدا ہویٰ ہیں پرانے طرز کہن اقدار و اطوار کے پر اٹے رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ ہم عوام کو اس بات پر قایل کریں کہ ہماری فرسودہ راویات الہامی ہیں ان میں تبدیلی کی گنجاش نہیں، ہمارا دعویٰ ریاست جموں کشمیر کی آزادی اور وحدت کا ہے لیکن ہم اپنی سرزمین کی ڈیمو گرافی اور قومی اجزاے ترکیبی میں ہونے والی شکست و ریخت سے انجان ہیں یا کسی نا دکھایٗ دنیے والی قوت کی طرف سے معجزے کے متلاشی ہیں۔ ہم انقلابی کی بجائے عقیدہ پسند بن گئے ہیں۔
ہمارا لٹریچر،تقریریں اور بیانات خیال پرستی پر مشتمل نرگسیت کے رومان پرور لفظوں کا بھنڈارا ہیں۔ جو نا صرف قومی تحریک کے کارکنوں بلکہ عوام کو بھی حالات کا مقابلہ کرنے ک لیے درست راہنمایئ کی بجاے تھپکی دے کر لاتعلق کرنے کا کام کر رے ہین۔ورنہ یہ سمجھنا کیوں مشکل ہے کہ ہماری زمین پر مذاہب ہمارے قومی مفادات اور آزادی کی تحریک کے خلاف ایک خظرناک ہتھیار کے طور پراستعمال ہو کر عوام کے درمیان نفرت کا سبب بنے ہیں جبکہ قبضہ گیر نے ان کے ذریعے سماجی ترقی کی ساری پرتوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
اسی صورتحال کو سمجھتے ہوے نیے سرے سے صف بندی کا اغازہے۔ یہ ایک مختصر سا خاکہ جس کو بنیاد بنا کر ریاست جموں کشمیر کے تینوں مقبوضہ حصوں کی قومی تحریک میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ایک قومی عوامی تحریک تشکیل دی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تحریرایک جامع خاکہ نہیں لیکن ایک اجمالی خاکہ ضرور ہے جو آگے بڑھنے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے۔ امید اور حوصلے کی موہوم روشنی کی یہ لہر انقلاب و آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
٭٭٭
Share this content:


