بین الاقوامی ایئر پورٹ ایک حسین خواب۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو فطری حسن، سیاحتی مقامات، دریاؤں، پہاڑوں اور بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں کی محبت کے باعث عالمی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم اس خطے کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ زمینی تنہائی ہے۔

یہاں نہ کوئی بین الاقوامی ایئربورٹ ہے اور نہ ہی براہِ راست فضائی رابطہ۔ بیرونِ ملک آباد لاکھوں کشمیری جب اپنے وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو انہیں لاہور، اسلام آباد یا سیالکوٹ سے طویل زمینی سفر کرنا پڑتا ہے۔

جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی عوامی حقوق کی پر امن اور پر عزم تحریک کی بدولت حکومت پاکستان نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ طے پانے والے حالیہ معائدے میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر کام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے جو یقیناًعوامی تحریک اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔

اگر اس وعدے کو پورا کیا جاتا ہے تو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ نہ صرف لاکھوں عوام کے لیے آسانی لائے گا بلکہ اس حسین خطے کو عالمی نقشے پر بھی لے آئے گا۔آج کا دور وہ نہیں رہا جب پہاڑوں کے بیچ چھپی وادیاں خود کو دنیا سے کٹی ہوئی رکھ سکیں۔ سیاحت، تجارت اور ہجرت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ اس خطےکے لیے ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ کے قیام کا مقصد صرف سفری سہولت نہیں، بلکہ ایک معاشی اور سیاحتی انقلاب ثابت ہو گا۔

ایئرپورٹ کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور کارگو اور تجارتی راستے بھی فعال ہوں گے۔ یہ منصوبہ بیرونِ ملک کشمیریوں کا وطن کے ساتھ براہِ راست رابطہ فراہم کرے گا اور ان کے سرمایہ کاری کے مواقع کو بھی فروغ دے گا۔سب سے اہم سوال جو سوشل میڈیا کی زینت بن رہا ہے، پہاڑی کہاوت ہے ( سؤئی نہی تے پہلے ٹہیر پلمبی مؤئی) وہ یہ ہے کہ ایئرپورٹ کہاں ہو؟ اس کا فیصلہ جذبات یا سیاسی مفادات علاقائی تعصب سے نہیں، بلکہ فنی رپورٹس، ماہرین کی رائے اور عوامی مفاد کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

میرپور پنجاب کے قریب ہونے اور رسائی آسان ہونے کی وجہ سے موزوں نظر آتے ہیں، جبکہ بھمبر اور کوٹلی تجارتی اور سی پیک کے لحاظ سے اہم ہیں، اور راولاکوٹ سیاحتی اعتبار سے اہم ہے مگر پہاڑی خطہ ہونے کی وجہ سے تعمیراتی لاگت زیادہ ہے۔ ساتھ ہی راولاکوٹ اور مظفر آباد کا موسم بھی ایک رکاوٹ ہے جہاں سردیوں میں برفباری جبکہ برسات میں بارشیں اور دھند بھی فضائی ٹریفک کے لیے رکاوٹ بنتی ہے ۔جگہ کا انتخاب ایئر پورٹ کے بین الاقوامی معیار اور ضروریات کے مطابق ہونا چاہئیے اس فیصلے میں عوام، حکومت اور بیرونِ ملک کشمیری تینوں کا کردار بنیادی ہے۔

عوام کو منصوبے کی تکمیل کے لیے پر عزم رہتے ہوے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا چونکہ بڑے منصوبے کسی فرد گروہ سیاسی پارٹی یا کسی ایک علاقے کی مخصوص عوام کی میراث یا ملکیت نہیں ہوا کرتے یہ قومی ورثہ اور قومی ملکیت ہوتے ہیں حکومت کو بین الاقوامی معیار کی پالیسی اور قانونی منظوری فراہم کرنا ہوگی اور اوورسیز کشمیری سرمایہ، بین الاقوامی رابطے اور عالمی لابنگ کے ذریعے منصوبے کو مضبوط تقویت پہنچائیں گے تب ہی اس حسین خواب کی تعبیر ممکن ہو گی یہ ایئرپورٹ صرف جہازوں کے لیے نہیں، بلکہ معاشی اور تجارتی ترقی کا مرکز بھی ہوگا۔

روزگار کے مواقع ہزاروں افراد کو ملیں گے، نوجوان مقامی سطح پر تربیت حاصل کریں گے اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔ خطےمیں قدرتی حسن کے ساتھ اقتصادی ترقی کا توازن قائم رہ سکے گا اور بین الاقوامی تجارتی راستے کھلیں گے۔ کارگو کے ذریعے سیب، شہد، دستکاری اور ہنر کی برآمدات ممکن ہوں گی، اور مقامی صنعتوں کو نئی زندگی ملے گی۔ اوورسیز کشمیری سرمایہ کاری اور تجارتی شراکت کے ذریعے اس منصوبے کا حصہ بنیں گے، جس سے نہ صرف مقامی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ بیرونِ ملک آباد کشمیریوں کا وطن سے تعلق بھی مضبوط ہوگا۔

اس منصوبے کی شروعات اور تکمیل کے لیے سب سے اہم مرحلہ ذہنی تیاری اور قومی عزم ہے۔ عوام، حکومت پاکستان ،پاکستان کے زیر انتظام ریاستی حکومت اور اوورسیز کشمیریوں کا عزم ایک ساتھ ہونا چاہیے تاکہ منصوبہ خواب سے حقیقت میں تبدیل ہو۔ عوامی شعور، مثبت توقعات اور تعاون کے بغیر جگہ کے انتخاب اور زمین کے حصول میں تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو طویل مدتی وژن کے ساتھ منصوبے کی پالیسی سازی کرنی ہوگی اور اوورسیز کشمیری سرمایہ، لابنگ اور مشورے کے ذریعے اس عمل میں حصہ لیں۔

یہ منصوبہ صرف معاشی نہیں بلکہ ثقافتی اور اسٹریٹجک بھی ہے، اور ترقی کو ماحول اور ثقافت کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔اگر واقعی دنیا کے نقشے پر اس خطے کامقام بلند کرنا ہے تو ایئرپورٹ صرف عمارت نہیں بلکہ خودداری، روزگار، صنعت، تجارت اور عالمی شناخت کا مرکز ہوگا۔ یہ منصوبہ فیصلے، عمل، وژن اور قومی عزم کا امتحان ہے۔ آج کا فیصلہ کل کی تقدیر کا تعین کرے گا اور کشمیر کے نام کو فضاؤں میں بلند کرے گا، جس دن پہلا جہاز یہاں اترے گا، وہ دن صرف تعمیر یا حسین خواب کی تعبیر کا دن نہیں، بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

***

Share this content: