پاکستانی جموں کشمیر میں عوامی مزاحمت اور قتل و غارت ۔۔۔ حبیب رحمان

عرصۂ دراز سے پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی عوام ایک ایسے نظام کے تحت جی رہی ہے جو بظاہر خودمختاری کا وعدہ کرتا ہے مگر حقیقت میں مکمل انحصار اور تابع داری پر قائم ہے۔ اس پوری تحریک کو ریاست کی جبری تقسیم کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہئے — کہ کس دھوکہ دہی اور فراڈ سے عوام کو 1947 میں لوٹا گیا، قتل کیا گیا اور ریاست تقسیم ہوئی۔

یہ زخم آج تک مندمل نہیں ہو سکا۔ یہ درد کبھی آواز بن کر، کبھی چیخ بن کر ابھرتا ہے۔

تقسیم کے بعد پہلی انکار کی آواز پچاس کی دہائی میں اٹھی — جسے "پونچھ کی بغاوت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج نے اس بغاوت کو بے رحمی سے کچل دیا۔ اس دوران جس طرح کا ظلم کیا گیا اس سب کا گو کہ کوئی ریکارڈ موجود نہیں، مگر مقامی لوگوں کے مطابق عوام پر بے پناہ تشدد کیا گیا، درختوں سے لٹکا کر مارا گیا، گھروں کو جلایا گیا اور پورے گاؤں کے گائوں محاصرے میں رکھے گئے ۔

اس وقت بھی مطالبہ صرف ایک تھا — حقِ حکمرانی۔

یہ بغاوت آج بھی خوف کے سائے میں دبی ہوئی یادوں میں زندہ ہے — ایک ایسی یاد جو آج کے احتجاجوں میں نئی شکل میں ابھر رہی ہے۔

۱۹۸۸میں جب پاکستان نے ہندوستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں پراکسی جنگ شروع کی تو اس حصے سے نیم قوم پرست تنظیموں نے سرینگر کی طرف مارچ کیے۔۱۱۹۰ اور ۱۹۹۲ میں پاکستانی فوج نے ان پر گولیاں چلائیں، کئی نوجوان قتل کر دیے گئے۔ آج کی تحریک اور اُس وقت کی تحریک میں فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت قیادت "تھرڈ آپشن” کے حامیوں کے پاس تھی، جبکہ آج کی تحریک ایک خود رو عوامی مزاحمت ہے — جس کا کوئی ایک رہنما نہیں، بلکہ سب رہنما ہیں۔

حال میں شروع ہونے والے عوامی احتجاج — جنہیں ابتدا میں بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف غصے کے طور پر دیکھا گیا — اب ایک گہری سیاسی و فکری تحریک میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ تحریک حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت کے گرد گھومتی ہے۔

معاشی مسائل سے سیاسی بیداری تک — شروع میں احتجاج بظاہر معاشی نوعیت کے تھے: مہنگی بجلی، غیر منصفانہ ٹیکس اور بدعنوانی۔ مگر ان کے پیچھے اصل احساس یہ تھا کہ عوام کو اپنے وسائل اور فیصلوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ ایک ایسے خطے میں جہاں کے دریا، جنگلات اور بجلی کے منصوبے پاکستان کے قومی خزانے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، وہاں مقامی لوگ غربت، بے روزگاری اور عدم نمائندگی کا شکار ہیں۔

عوام کا سوال فطری ہے: “اگر یہ آزاد جموں و کشمیر ہے تو ہم اپنے وسائل اور فیصلوں کے مالک کیوں نہیں؟” یہی سوال اس تحریک کی بنیاد بن چکا ہے۔

حقِ ملکیت — زمین اور وسائل پر عوام کا حق: مقامی آبادی کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر کو ایک وسائل کی نوآبادی بنا دیا ہے — جہاں بجلی، لکڑی اور پانی تو پاکستان استعمال کرتا ہے مگر عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس عدم مساوات نے ایک نئے شعور کو جنم دیا ہے اب حقِ ملکیت عوام کے نزدیک معاشی انصاف اور عزتِ نفس کی علامت بن چکا ہے۔

“نفع وہ لیتے ہیں، قیمت ہم ادا کرتے ہیں — یہ آزادی نہیں، غلامی ہے۔” مظاہرین کا یہ جملہ اب عوامی بیانیہ بن چکا ہے۔

حقِ حاکمیت — اپنے فیصلے خود کرنے کا حق: عرصۂ دراز سے آزاد جموں کشمیر کی سیاسی و انتظامی پالیسیاں اسلام آباد کے کنٹرول میں رہی ہیں۔ اہم فیصلے، بجٹ، اور ترقیاتی منصوبے مقامی حکومت نہیں بلکہ پاکستانی ادارے طے کرتے ہیں۔ پاکستان نے ایسے گروپ تشکیل دیے جو عوام کو دھوکہ دہی سے لوٹنے میں مگن ہیں۔ وہ سب لوگ جو عوام کے دکھوں پر آواز اٹھاتے تھے، مجرم اور ایجنٹ قرار دیے گئے۔

جب احتجاج دبانے کے لیے پیراملٹری فورسز، گرفتاریاں، اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ جیسے اقدامات کیے گئے تو یہ احساس مزید گہرا ہوا کہ اسلام آباد ایک “حاکم اور قابض” کے طور پر برتاؤ کر رہا ہے۔ اب یہ تحریک اصلاحات کی نہیں بلکہ خود حکمرانی کی تحریک بن چکی ہے کہ عوام نہ صرف اپنے وسائل کے مالک ہوں بلکہ اپنے فیصلوں کے بھی مختار ہوں۔

ریاستی جبر اور اعتماد کا انہدام — اسلام آباد نے ابھرتی ہوئی بیداری کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ پرامن نہتے لوگوں پر فائرنگ کی گئی، کم از کم 12 افراد قتل کر دیے گئے۔ درجنوں گرفتار ہوئے، گھروں پر چھاپے پڑے، میڈیا پر پابندیاں لگیں۔ ریاستی اہلکاروں نے حسبِ روایت کہا کہ یہ “بھارتی سازش” ہے، مگر یہ بیانیہ بری طرح ناکام ہوا۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی کا تضاد — پاکستان عالمی سطح پر یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر کے حقِ آزادی کا حامی ہے، مگر جب یہی حق اس کے زیرِ انتظام خطے میں مانگا جاتا ہے تو اسے غداری کہا جاتا ہے۔ یہی تضاد پاکستان کے مؤقف کو اخلاقی و سیاسی لحاظ سے کمزور بناتا ہے۔ اب آزاد جموں کشمیر کے عوام پوچھتے ہیں: اگر آزادی صرف بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے لیے ہے تو پاکستانی زیرِ انتظام جموں کشمیر کے لوگ کب آزاد ہوں گے؟

نئی قومی بیداری ۔ نئی شناخت: آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں نعرے بدل چکے ہیں — “حقِ ملکیت! حقِ حاکمیت!” یہ نعرے کسی نظریاتی مہم کا حصہ نہیں بلکہ زمینی حقیقت کا اظہار ہیں۔ نئی نسل یہ باور کر چکی ہے کہ آزادی کا مطلب صرف جغرافیائی حیثیت نہیں بلکہ اختیار، انصاف اور خودمختاری ہے۔

یہ تحریک کسی قوم دشمنی کی نہیں بلکہ ظلم اور تابع داری کے خلاف بغاوت کی علامت ہے۔ یہ ایک نئی قومی بیداری ہے جو عزت، شناخت اور انصاف کے تصور پر کھڑی ہے۔

بظاہر پاکستان نے عوامی مطالبات کو مان لیا ہے لیکن وہ کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ اس کے قائم کردہ نظام میں کوئی تبدیلی آئے۔ مظفرآباد میں جعلی جمہوری نقاب پہنے اسمبلی، جو پاکستان کے کنٹرول میں ہے، اگر کسی حقیقی بااختیار ادارے میں بدلنے لگے تو پاکستان اسے برداشت نہیں کرے گا۔

نتیجتاً مزاحمت ایک نئی شکل اختیار کرے گی۔ پاکستانی ریاست ترقی پسند اور قوم پرست حلقوں پر مزید جبر کرے گی، اور مجاہد تنظیموں کے ذریعے خوف پیدا کرنے کی کوشش کرے گی — اگرچہ ریاست جموں کشمیر کی مقامی تنظیموں نے عوامی تحریک کے خلاف کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ انکار کرنے والوں میں سے کچھ کو قتل بھی کر دیا گیا۔

آزادی کا نیا مفہوم ۔ آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ تحریک اب محض بجلی اور ٹیکس کے مسئلے کی نہیں رہی۔ یہ اب وقار، خودمختاری اور مالکانہ اختیار کی تحریک بن رہی ہے۔ عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ جب تک انہیں اپنے وسائل اور فیصلوں پر اختیار حاصل نہیں ہوگا، ایک باوقار زندگی ممکن نہیں۔

حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت اب اس خطے کی نئی سیاسی لغت کے بنیادی الفاظ ہیں — اور اگر اسلام آباد نے جبر اور قتل کی پالیسی برقرار رکھی، تو یہ تحریک ایک منظم قومی مزاحمتی تحریک میں بدل سکتی ہے۔ کیونکہ جب عوام اپنے حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں تو انہیں طاقت سے زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا۔

***

Share this content: