دنیا ہمیشہ نئی نسلوں کے آنے سے آگے بڑھتی ہے۔
ہر نسل اپنے زمانے کی ٹیکنالوجی، نظریات اور تجربات سے ایک الگ پہچان قائم کرتی ہے۔ آج کے عہد کی سب سے نمایاں اور زیرِ بحث نسل "جین زی” کہلاتی ہے وہ نوجوان جو اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد پروان چڑھے، اور جنہوں نے آنکھ کھولی تو دنیا پہلے ہی ڈیجیٹل ہو چکی تھی۔
یہ نسل روایتی خطوط اور پرانی یادداشتوں کی نہیں، بلکہ رفتار اور ربط کی نسل ہے۔ ان کے ہاتھوں میں کتاب سے زیادہ موبائل فون ہے، ان کا دوست انٹرنیٹ ہے، اور ان کی دنیا ایک اسکرین پر آباد ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کے لیے علم و تفریح، خرید و فروخت، حتیٰ کہ اظہارِ رائے بھی محض ایک کلک کا فاصلہ رکھتے ہیں۔
ان کا سوچنے کا انداز بھی تیز اور وسیع ہے۔ یہ ہر بات پر سوال اٹھاتے ہیں، دلیل مانگتے ہیں، اور سچائی تک پہنچنے کے لیے اپنی راہ خود بناتے ہیں۔ یہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
جین زی نے خود کو ایک باشعور اور حساس طبقے کے طور پر منوایا ہے۔ یہ نسل رنگ ونسل، مذہب یا طبقاتی تفریق سے بالاتر ہو کر مساوات اور انصاف کی داعی ہے۔ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق، اور معاشرتی عدل جیسے موضوعات ان کے دل کے قریب ہیں۔ یہ نوجوان کسی بھی ناانصافی پر خاموش نہیں رہتے، بلکہ آواز اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
پچھلی نسلوں کے برعکس جین زی کے نزدیک کامیابی کا مطلب محض ایک "مستقل نوکری” نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں سے خود روزگار پیدا کرنا ہے۔یہ نسل ہنرمندی، جدت اور خود انحصاری پر یقین رکھتی ہے۔ آن لائن کاروبار، فنونِ لطیفہ، اور تخلیقی پیشے ان کے لیے روزگار کے نئے دروازے بن گئے ہیں۔
یہ نوجوان وہی ادارے پسند کرتے ہیں جو شفافیت، اخلاقیات اور ماحول دوستی پر یقین رکھتے ہوں۔ ان کے نزدیک معیشت کا مقصد صرف منافع نہیں، بلکہ سماجی بہتری بھی ہے۔جین زی تعلیم کو ڈگری نہیں بلکہ زندگی کی تیاری سمجھتی ہے۔ یہ نسل خود سیکھنے کی عادی ہے، خواہ یوٹیوب سے ہو یا کسی آن لائن درسگاہ سے۔ان کے لیے اصل کامیابی یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیت کو پہچانے اور اسے انسانیت کے فائدے میں استعمال کرے۔
مستقبل انہی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر انہیں مثبت رہنمائی، مواقع اور اعتماد دیا جائے تو یہ نسل اپنی ذہانت اور جدت سے ملک و قوم کو ترقی کی نئی راہوں پر ڈال سکتی ہے۔جین زی تبدیلی کا استعارہ ہے۔ یہ نسل ماضی کی زنجیروں سے آزاد، حال کے تقاضوں سے باخبر اور مستقبل کی تعمیر کے لیے پُرعزم ہے۔
ان کے اندر جو توانائی، تخلیق اور حوصلہ ہے، وہ کسی انقلاب سے کم نہیں۔معاشرہ اگر ان کی آواز کو سنے، ان کے نظریات کو سمجھے، اور ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد دے، تو ہم میں سے اکثر وہ دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہونگے مگر یقین کیجیے آنے والا زمانہ روشنی، مساوات اور نئی امیدوں اور امیدوں کی تکمیل سے بھرپور ہوگا۔
Share this content:


