پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 25 جولائی 2021 کو عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا، جن میں کل 45 نشستیں براہِ راست انتخاب کے لیے مختص تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے 45 میں سے 26 نشستیں حاصل کر کے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی 11 اور مسلم لیگ (ن) 6 نشستوں تک محدود رہی۔ دوسری جانب ریاستی جماعت ہونے کی دعوے دار مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔
انتخابات کے بعد بانی تحریکِ انصاف(عمران خان) کی جانب سے سردار عبدالقیوم نیازی کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے لیے فیورٹ قرار دیا گیا، اور یوں 4 اگست 2021 کو سردار قیوم نیازی نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
اسی دوران، پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے منتخب سردار تنویر الیاس بھی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پارٹی اختلافات نے سر اٹھایا اور سردار تنویر الیاس نے اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری شروع کر دی۔ عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل، 14 اپریل 2022 کو سردار قیوم نیازی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ ان کا دورِ حکومت 8 ماہ اور 10 دن پر مشتمل تھا۔
اس طرح سردار تنویر الیاس ایک بار پھر وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور 18 اپریل 2022 کو انہوں نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ ان کے دورِ حکومت میں خطے میں احتجاجوں کی ایک نئی لہر اٹھی جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، 11 اپریل 2023 کو ہائیکورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں سردار تنویر الیاس کو نااہل قرار دے دیا، یوں ان کا 11 ماہ 7 دن پر مشتمل اقتدار ختم ہوا۔
بعد ازاں، آزاد کشمیر کے پندرہویں وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے 20 اپریل 2023 کو حلف اٹھایا۔ ان کی حکومت کو ایک نئے سیاسی تجربے کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے فارورڈ بلاک کے 22 ارکان کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے کے پی پی کو ملا کر ایم ایل ایز حکومت تشکیل دی۔
تاہم، اپوزیشن نہ ہونے کے باعث عوامی سطح پر بے چینی بڑھنے لگی۔ یہی وہ خلا تھا جسے 16 ستمبر 2023 کو تشکیل پانے والی جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) نے پُر کرتے ہوئے اپوزیشن کا کردار سنبھال لیا۔
اب ایک بار پھر آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
یہ سوال اب شدت سے زیرِ بحث ہے کہ:
کیا ن لیگ واقعی اپوزیشن کے خلا کو پُر کر پائے گی؟
یاد رہے کہ 20 اپریل 2023 سے اب تک مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے کے پی پی تینوں ہی اس مخلوط حکومت کی مشترکہ بینیفشری رہی ہیں۔ اگر رواں ہفتے چوہدری انوار الحق کے خلاف عدم اعتماد آتی ہے تو ان کا دورِ حکومت تقریباً 30 ماہ پر مشتمل ہو گا۔
عوامی و سیاسی حلقوں میں ایک اور سوال گردش کر رہا ہے:
کیا چوہدری انوار الحق عدم اعتماد سے قبل مستعفی ہو جائیں گے؟
آزاد کشمیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک بار ایسا ہوا کہ کسی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے باعث گھر جانا پڑا — 2009 میں سردار عتیق احمد خان۔ دیگر تمام وزرائے اعظم عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی مستعفی ہوتے رہے ہیں۔ اگر اس بار عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو یہ 2021 سے 2026 کے دوران دوسری عدم اعتماد اور چوتھا وزیراعظم ہو گا۔
قبل ازیں، 2006 سے 2011 کے دوران مسلم کانفرنس کے دورِ اقتدار میں بھی تین بار عدم اعتماد پیش ہوئی تھی اور اس عرصے میں چار وزرائے اعظم یکے بعد دیگرے آئے — سردار عتیق، سردار یعقوب، راجہ فاروق حیدر اور دوبارہ سردار عتیق احمد خان۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر روزِ اوّل سے پاکستان کی سیاسی تجربہ گاہ رہا ہے۔ کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی صدارتی نظام، تو کبھی بھٹو کا جمہوری ماڈل — سب کا تجربہ پہلے اسی خطے میں کیا گیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، موجودہ مخلوط نظام حکومت کی ناکامی اور عوامی سطح پر بڑھتے احتجاجی رحجانات کے پیشِ نظر پالیسی ساز ایک نئے سیاسی تجربے کی تیاری کر رہے ہیں — جس کا مقصد شاید اس خطے میں ایک بار پھر سیاسی توازن پیدا کرنا ہے۔
٭٭٭
Share this content:


