پاکستانی جموں کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تیاریاں مکمل ،چار سالوں دوران چوتھا وزیراعظم کا سلیکشن عنقریب

مظفرآباد / کاشگل نیوز

پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ یوں چار سالوں کے دوران اب چوتھا وزیراعظم بنایا جائے گا۔

بالآخر پیپلز پارٹی نے غلاظت میں بلواسطہ حصہ داری سے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے براہ راست حصہ بننے کی راہ اپنانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے وزیراعظم کو بھی وہی لوگ منتخب کریں گے، جنہوں نے پچھلے کو منتخب کیا تھا۔ ایک فرق البتہ ہوسکتا ہے کہ نئے وزیراعظم کو ستائیس یا اٹھائیس ووٹ ملیں گے، جبکہ انوارالحق کو 48 ووٹ ملے تھے۔

بدترین نوآبادیاتی سیٹ اپ وہی ہوتا ہے جہاں مسلط کیے گئے مطیع اور طفیلی حکمرانوں کو اپنی نوکری کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے پیپلز پارٹی کے مقامی ملازمین اور وہ لوٹے جو ہر چند ماہ بعد پارٹی تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں، کبھی لاڑکانہ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں مختلف سامراجی افسروں کے سامنے حاضریاں لگا رہے ہیں۔

یہ بھی المیہ ہے کہ چوہدری ریاض نامی فیصل آباد کا رہائشی ایک شخص جموں کشمیر کے اقتدار کے فیصلے کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جسکا کام صرف مقامی کلیکشن ایجنٹوں سے ٹھیکوں کے حصے وصول کر کے فریال تالپور اور آصف علی زرداری تک پہنچانا ہے۔ چوہدری ریاض نے خود قومی اسمبلی کے انتخابات میں محض چند سو ووٹ حاصل کر رکھے ہیں، لیکن جموں کشمیر میں وہ وزیراعظم کے تقرر کا فیصلہ کرنے، وزارتیں تقسیم کرنے اور ٹھیکوں کی حصہ داری تک کے فیصلے کرنے میں بااختیار ہے۔

ایک اور فرق یہ ہوگا کہ اس بار مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے نام پر بارہ نشستوں پر بننے والے ممبران اسمبلی کا ان ہاؤس تبدیلی میں کلیدی کردار نہیں ہے، گو ان کا ایک حصہ نئی حکومت میں بھی موجود رہے گا، لیکن اس بار وہ اپنا ووٹ من پسند وزارتیں لینے کے لیے نہیں، بلکہ انوارالحق سے بدلہ لینے کے لیے دیں گے۔ انہیں مالکوں نے یہ سمجھایا ہے کہ ان کی لوٹ مار ختم کرنے کے ذمہ دار انوارالحق ہیں۔

عوامی حقوق تحریک کی وجہ سے جموں کشمیر میں پاکستان نواز جماعتوں کا صفایا ہوچکا ہے۔ ان ممبران اسمبلی کا اپنے حلقوں میں جانا ناممکن ہے۔ تاہم لوٹ مار اور عہدوں کی لالچ میں اس حد تک اخلاقی، سیاسی اور ثقافتی گراوٹ ہے کہ سات ماہ کے اقتدار کے لیے بھی اُمیدواروں کی لائن لگی ہے۔ یہ سب وزارت عظمیٰ کا ٹیگ لگوانے، تاحیات پنشن اور مراعات لینے اور سب سے بڑھ کر نو ماہ کے دوران چند کروڑ روپے سرکاری خزانے سے ہڑپ کرنے کےلیے کیا جا رہا ہے۔ یہی حرکتیں حکمران اشرافیہ کے خلاف نوجوان نسل کے اندر نفرت کا باعث بھی ہیں، اور شاید ان کی یہ مراعات اور لوٹ مار اب زیادہ عرصہ چلنے والی بھی نہیں ہے۔

اس ساری داستان نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ اس نوآبادیاتی ڈھانچے کو مسترد کرنے والے اس خطے کے لاکھوں عوام حق بجانب ہیں۔ یہ مظفرآباد کا نوآبادیاتی اقتدار نہ صرف عوام کے حق حکمرانی اور وسائل پر اختیار کی راہ میں ایک بہت بڑی سامراجی رکاوٹ ہے، بلکہ عوام کی معاشی اور سماجی محرومیوں کا بالواسطہ موجب بھی ہے۔

ایک بار پھر یہ کھل کر عیاں ہوچکا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کے مقدر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اسلام آباد میں بیٹھے طاقت کے مراکز کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اس نوآبادیاتی اقتدار کا خاتمہ کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ یہ حق اور اختیار جموں کشمیر کے عوام کا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر شہریوں اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین کریں۔ یہ حق اور اختیار بھی جموں کشمیر کے عوام کا ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے ساتھ عبوری طور پر جموں کشمیر کے اس حصے کے تعلق کا فیصلہ بھی خود کریں۔ یہ حق و اختیار بھی جموں کشمیر کے عوام کا ہے کہ وہ اپنے وسائل اور غیرملکی زرمبادلہ کے مصرف کا فیصلہ بھی خود کریں۔

یوں تو آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ جب حق خودارادیت ارادیت کے ذریعے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور جموں کشمیر کے تعلق کا فیصلہ جموں کشمیر کے عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے گا۔ حق خودارادیت ملنا تو دور دور تک نظر نہیں آرہا، لیکن وہ حق ملنے سے پہلے ہی جموں کشمیر کے پاکستانی زیرانتظام علاقوں کے پاکستان کے ساتھ عبوری تعلق کا فیصلہ جن اصولوں کے تحت کیا گیا ہے اور جیسے ان علاقوں کا انتظام چلایا جا رہا ہے، اس سے یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ اگر غلطی سے بھی جموں کشمیر کے لوگوں نے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ان کا مستقبل کیا ہوگا اور کیسے متعین ہوگا۔

نوآبادیاتی خطوں میں حکمران اشرافیہ، نوکر شاہی اور یہاں تک کہ عام عوام کی نفسیات بھی اس طریقے سے ڈھل جاتی ہے کہ انہیں اپنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔ انہیں فیصلے کے لیے سامراجی آقاؤں کی طرف دیکھنے یا ان سے درخواستیں کرنے کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ یوں اس نوآبادیاتی غلامی کو مسترد کرنے کا فیصلہ لینے میں بھی قیادتوں کو گھبراہٹ ہوتی ہے اور معاشرے کی متحرک پرتیں بھی ایسے فیصلوں کو اپنانے سے کتراتی ہیں۔

جموں کشمیر کے پاکستانی زیرانتظام حصے میں ہونے والے واقعات ایک بار پھر قیادتوں کو یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس نوآبادیاتی ڈھانچے کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے آگے بڑھیں۔ جون 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کن مرحلہ شروع کرنے اور بعد ازاں مہاراجہ کی افواج کو اس خطے سے مار بھگانے کے بعد جس حکومت کی بنیاد اس خطے کے لوگوں نے رکھی تھی، اس کے بنیادی اعلامیے کے مطابق حکومت کی بحالی کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ناگزیر ہوچکی ہے۔

اس حکومت کو پاکستان سے قبائلی حملہ آوروں کو جموں کشمیر میں بھیجنے والوں نے اپنے نوآبادیاتی اور مذموم مقاصد کے تحت اس بنیادی اعلامیے کے مطابق قائم نہیں ہونے دیا۔ مقامی قیادتوں نے بھی مصلحت پسندی اور سامراجی کاسہ لیسی میں عوامی امنگوں کا قتل کیا۔

پاکستانی ریاست کے اس سامراجی اقدام کے خلاف جدوجہد کا سلسلہ 1950 میں انہی لوگوں نے شروع کیا تھا، جنہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جدوجہد کو منظم کیا۔ پاکستانی ریاست کی جانب سے فوج کشی اور بڑے پیمانے پر قتل عام کے بعد ایک بار آئین ساز اور جمہوری حکومت کے قیام کے لیے الیکشن کمیشن بنانے کا مطالبہ تسلیم بھی کیا گیا۔ تاہم 1953 میں مطالبہ تسلیم کرنے کے باوجود الیکشن نہیں کروائے گئے۔ 1955 میں پھر بغاوت ہوئی جسے بے دردی سے کچلا گیا، معاہدہ بارل کے تحت یہ بغاوت تو ختم ہوئی، لیکن بے پناہ جبر کا نشانہ بننے کے باوجود سامراجی حکمرانوں نے جموں کشمیر کے لوگوں کو سیاسی فیصلوں کا حق آج تک نہیں دیا۔

آج ایک بار پھر لوگ حق حکمرانی مانگ رہے ہیں اور قیادتیں ایک بار پھر اس حق کی راہ میں ایک رکاوٹ بنے کھڑی نظر آرہی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اس خطے میں چوبیس اکتوبر 1947 کے اعلان آزادی کے مطابق آئین ساز، جمہوری اور نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے آگے بڑھا جائے، تاکہ لوگوں کو ان کا یہ بنیادی جمہوری حق مل سکے اور وہ فیصلہ سازی میں بااختیار ہوسکیں۔

Share this content: