پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں سیاسی منظرنامہ ایک عرصے سے بے یقینی، مفاد پرستی اور موقع پرستی کا شکار ہے۔ اقتدار کی رسّہ کشی، ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی نے عوام کا سیاسی عمل پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ وہ جماعتیں جو عوامی نمائندگی کے دعوے دار ہیں، عملاً اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔
نتیجہ یہ کہ عوام کی امیدیں سیاسی نعروں کے شور میں دب کر رہ گئیں۔یہ خطہ، جو اپنی سیاسی و جغرافیائی حیثیت کے باعث ہمیشہ حساس رہا ہے، بدقسمتی سے ایسے نظام کا شکار ہے جہاں نظریات کی بجائے ذاتی مفادات کی سیاست غالب ہے۔ جمہوریت کے نام پر مفاداتی گروہ بندی نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اُنہیں مزید گہرا کیا ہے۔
بوسیدہ، غیر منصفانہ اور طبقاتی نظام نے نہ صرف اداروں کی ساکھ کمزور کی ہے بلکہ عام شہری کے اندر بے بسی کا احساس پیدا کیا ہے۔تاہم، اس مایوسی کے گھپ اندھیرے میں جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی صورت میں ایک نئی کرن ضرور ابھری ہے اس پلیٹ فارم نے عوام کو کسی حد تک بیدار کیا، انہیں احساس دلایا کہ تبدیلی صرف اقتدار کی کرسیوں سے نہیں بلکہ عوامی اتحاد، شعور اور مسلسل جدوجہد سے آتی ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے یہ ثابت کیا کہ جب عوام اپنی طاقت پہچان لیں تو وہ اُن طبقات کے سامنے بھی ڈٹ سکتے ہیں جو دہائیوں سے اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتے رہے ہیں۔اب سوال یہ نہیں کہ نظام خراب کیوں ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اسے کیسے ٹھیک کیا جائے؟ تو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ اصلاح کا پہلا مرحلہ عوامی شعور ہے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف ایک پرچی نہیں، بلکہ ایک عہد ہے۔
دوسرا مرحلہ جواب دہی کا ہے سیاستدانوں، اداروں اور قیادت کو عوامی عدالت کے سامنے جواب دینا ہوگا۔اور تیسرا مرحلہ اخلاقی اور شعوری انقلاب ہے کیونکہ جب تک معاشرتی اقدار درست نہیں ہوتیں اور شعور اپنی بلندی پر نہیں پہنچ جاتا، کوئی نظام نا تو بدل سکتا ہے نا ہی بدلنے کے باوجود دیرپا اصلاح پا سکتاہے۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام نے اپنی حالیہ عوامی حقوق کی جدوجہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ بیداری وقتی نہ ہو بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک کی شکل اختیار کرے جو انصاف، شفافیت اور عوامی خدمت پر مبنی ہو۔نظام کی تادیل محض قانون سازی سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی سے ممکن ہے۔
اگر عوام بیدار رہیں، باہم متحد رہیں اور اپنے ووٹ و آواز کی قدر پہچانیں، تو وہ دن دور نہیں جب یہ خطہ بوسیدہ نظام سے نکل کر عدل و انصاف اور حقیقی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے کیونکہ نظام خود بخود نہیں بدلتا، اسے بدلنے کے لیے عوام کو اپنی حیثیت پہچاننی ہوتی ہے۔
***
Share this content:


