پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی موجودہ سیاسی فضا اس وقت شدید انتشار اور بے یقینی کا شکار ہے۔ اقتدار کی کرسی کے گرد گھومتا ہوا سیاسی نظام ایک بار پھر عوامی مسائل سے کوسوں دور دکھائی دیتا ہے۔ ایک جانب وزیر اعظم انوار الحق کی حکومت کو عدمِ اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے، تو دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار سنبھالنے کے لیے صف بند ہو رہی ہے۔ مگر اس سارے کھیل میں وہ عنصر غائب ہے جو اصل قوت کا سرچشمہ ہونا چاہیے، یعنی عوام۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں عوامی سطح پر جو بیداری دیکھنے میں آئی ہے، وہ کسی بھی روایتی سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے ثابت کیا ہے کہ اب عوام محض تماشائی نہیں رہے۔ انھوں نے اپنے حقوق، انصاف، اور بااختیار حکمرانی کے لیے آواز اٹھائی ہے، اور اس آواز نے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے شہروں تک گونج پیدا کی ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ عوام نے ان اقتدار پرست جماعتوں کے نعروں اور وعدوں پر سے اعتماد اٹھا لیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے عوامی مفاد کو ہمیشہ اقتدار کے کھیل میں قربان کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اب ان سیاسی جماعتوں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آج ان جماعتوں کی مجموعی سیاسی طاقت سے کہیں زیادہ عوامی تائید حاصل کیے ہوئے ہے۔
عوام اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر موجودہ سیاسی ڈھانچہ عوام کے مفاد میں نہیں، تو پھر اس کا متبادل کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بہتر مستقبل کا راستہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب سیاست کا محور اقتدار نہیں بلکہ عوامی خدمت بنے۔ جو بھی قوت عوام کے حقیقی مسائل مہنگائی، بے روزگاری، ترقیاتی جمود، اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف عوامی امنگوں کے مطابق عملی کام کرے گی، وہی عوام کے لیے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری عوام اپنی اجتماعی بصیرت سے فیصلہ کریں کہ وہ چند مخصوص طبقوں کے اقتدار کے کھیل میں مزید ایندھن بننا چاہتے ہیں یا اپنے حقِ حکمرانی کے حقیقی علمبردار بن کر ایک نیا سیاسی کلچر جنم دینا چاہتے ہیں۔
اقتدار کی رسہ کشی وقتی ہے، مگر عوامی شعور اگر جاگ جائے تو وہ تاریخ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی طاقت کو پہچانیں کیونکہ اصل اقتدار ہمیشہ عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، نہ کہ اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کے پاس۔
٭٭٭
Share this content:


