دو سال چار ماہ سے بلاسفمی کے الزام میں اڈیالہ جیل میں قید عبدل کی والدہ کی کہانی

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ عبدل پچھلے دو سال چار ماہ سے بلاسفمی (توہینِ مذہب) کے الزام میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

عبدل اسلام آباد کی ایک جامعہ میں ایم بی اے کے طالب علم تھے۔

عبدل کی والدہ عروسہ بی بی نے اسلام آباد میں "دی بلیک ہول” نامی پلیٹ فارم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اسلام آباد منتقل ہوئی تھیں، مگر اب ان کی زندگی ایک کربناک امتحان میں بدل چکی ہے۔

عروسہ بی بی کے مطابق، ان کے بیٹے عبدل پر الزام اس وقت لگا جب اسے واٹس ایپ پر ایک لنک موصول ہوا۔ “اس لنک کے ذریعے ایک ایمان نامی خاتون سے اس کی بات چیت شروع ہوئی جو اسے ملازمت کی پیشکش کر رہی تھی۔ ایک دن اس نے عبدل کو انٹرویو کے لیے بلایا، لیکن وہاں پہنچنے پر میرے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا۔”

انہوں نے بتایا کہ کچھ روز بعد چند افراد ان کے گھر آئے جو خود کو ایف آئی اے اور عبدل کے دوست ظاہر کر رہے تھے۔ “میں نے ان سے کہا کہ میرا بچہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے پاس ہے، پریشان نہ ہوں۔ وہ عبدل کے تمام موبائل فونز اور ڈیوائسز اپنے ساتھ لے گئے۔”

عروسہ بی بی نے بتایا کہ انہیں ایف آئی اے اسلام آباد کا پتہ دیا گیا، جہاں جا کر انہوں نے عبدل سے ملاقات کی۔ “تیسرے دن جب میرے بھائی وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ عبدل پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے یہ لفظ کبھی نہیں سنا تھا۔”

انہوں نے بتایا کہ 23 جون 2023 سے وہ کبھی عدالتوں، کبھی جیلوں کے چکر لگا رہی ہیں۔ “میرے بیٹے کی تعلیم مکمل ہونے والی تھی۔ میں نے اس کی شادی کے لیے زیور کا سیٹ بنایا تھا، جو اب میں نے وکیلوں کو فیس دینے کے لیے بیچ دیا۔”

عروسہ بی بی نے الزام لگایا کہ عبدل کے اغوا میں ملوث افراد نے ان سے ایک کروڑ روپے تاوان مانگا۔ “میں ان کے چہرے بھول گئی ہوں، اس لیے پہچان نہیں سکتی۔”

انہوں نے کہا کہ توہینِ مذہب کے الزام کے بعد معاشرتی دباؤ ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔ “میرے دو بچوں کے رشتے طے تھے، مگر الزام لگنے کے بعد سب نے رشتے ختم کر دیے۔”

عروسہ بی بی اب بھی اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔ “میری کوئی بیٹی نہیں، عبدل ہی میری زندگی کا سہارا ہے۔ میں بس چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا واپس آجائے۔”

تفصیلات کے مطابق، ملک بھر میں 400 سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، ایک ایسے گروہ کے ہاتھوں جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنس چکے ہیں جو خود کو سماجی میڈیا پر گستاخانہ مواد کی نگرانی کرنے والا ایک خود ساختہ ‘نگران‘ گروہ ظاہر کرتا ہے۔

بعض متاثرین کے مطابق یہ گروپ لوگوں کو خود گرفتار بھی کرتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور بعد میں پیسے نہ ملنے کی صورت میں انہیں ایف آئی اے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

سپیشل برانچ کی رپورٹ کیا ہے؟

جنوری 2024 میں اڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (سپیشل برانچ) کی سربراہی میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں ایسے گینگ کی موجودگی کا بتایا گیا جو لوگوں کو بلیک میل کر کے رقم بٹورنے کے لیے ان کو بلاسفیمی کے کیسز میں پھنسا رہا ہے اور ان کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، ”ایک منظم گروہ سوشل میڈیا پر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس کے ذریعے نوجوانوں کو پھنسانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ حساس اور متنازعہ مواد شیئر کرتا ہے اور ناتجربہ کار یا غیر محتاط نوجوانوں کو غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے پر اکساتا ہے۔ بعد میں ان تبصروں کو ذاتی طور پر حاصل کر کے محفوظ کیا جاتا ہے اورایف آئی کے بعض عناصر کی ملی بھگت سے ایف آئی اے میں مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔‘‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ”یہ گروہ مذاکرات کے لیے ایک لڑکی کے ذریعے رابطہ کرتا ہے، اور عدم معاہدے کی صورت میں کیس کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں گستاخی کے خلاف پمفلٹ تقسیم کرنے اور سیمینار منعقد کرنے میں بھی سرگرم ہے، اور لوگوں کو پھنسانے کے لیے منظم انداز میں کام کر رہا ہے۔‘‘

وکلاہ کا کیا کہنا ہے؟

پھنسائے گئے لوگوں کے ایک وکیل ھادی علی چٹھہ کے مطابق عدالتوں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر شہادتیں جعلی ہو تی ہیں: ”اگر قانون کے مطابق پیش کی گئی شہادتوں کا ڈیجیٹل فرانزک کروایا جائے تو یہ آسانی سے ثابت ہو سکتا ہے، لیکن ایف آئی اے نے فرانزک نہیں کروایا اور یہ بات اب ہائیکورٹ اور اور دوسری کورٹس بھی مانتی ہیں لیکن بے گناہ لوگوں کو ضمانت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔‘‘

ھادی علی نے یہ بھی بتایا کہ پانچ ایسے لوگ جن پر بلاسفیمی کے کیسز بنائے گئے تھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان میں سے تین کی اموات اڈیالہ جیل میں اور دو کی لاہور جیل میں ہوئی ہیں اور اموات کی وجہ بے تحاشہ تشدد بنی۔

جرمن ادارے (Dw اردو)کے مطابق!

اس سلسلے میں ایف آئی اے کا باقاعدہ مؤقف جاننے کے لیے متعدد مرتبہ سپوکس پرسن سے رابطہ کرنے کی کو شش کی گئی لیکن ان کی طرف نہ تو کسی کال کا جواب دیا گیا اور نہ ہی لکھے ہوئے میسجز کا کوئی جواب موصول ہوا۔

Share this content: