تہاڑ کی دیواریں یاسین ملک اور انصاف ۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

آزادی کی جدوجہد ایک طویل، پیچیدہ اور جذباتی سفرہوتا ہے۔ اس سفر میں بعض شخصیات اتنی نمایاں ہو جاتی ہیں کہ ان کے کردار اور موقف ایک پوری تحریک کی علامت بن جاتے ہیں۔ محمد یاسین ملک انہی نامور شخصیات میں شامل ہیں، وہ آواز جو برسوں سے ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور آج تہاڑ جیل کی تنہائی میں بھی اپنی اساس سے دست بردار نہیں ہوئی۔

یاسین ملک کے کیس کو حال ہی میں ایک بین الاقوامی قانونی فرم کے توسط سے اقوامِ متحدہ کے غیر قانونی یا من مانی گرفتاریوں سے متعلق ادارے (UNWGAD) میں بھارتی حکومت کے خلاف ایک پٹیشن کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں یاسین ملک کی گرفتاری، عدالتی کارروائیوں، سزائے موت کی درخواست اور طبی سہولیات کی کمی جیسے سنگین نکات اٹھائے گئے ہیں۔

یہ قدم محض قانونی دستاویز کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے معاملے کو عالمی سطح پر لانے کی کوشش ہے جو انسانی حقوق، قانونی جمہوریت اور سیاسی مباحثے کے دائرے تک محدود ہے۔ یاسین ملک ریاست جموں کشمیر کی مکمل خودمختاری کی داعی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے (پابند سلاسل) چیئرمین ہیں ۔

حال ہی میں برطانیہ میں تنظیمی راہنماؤں نےایک پریس کانفرنس میں یاسین ملک کے کیس کو لاء فرم کے توسط سے بین الاقوامی سطح پر أٹھانے کا اعلان کیا گیا۔ پریس کانفرنس اور اس کے بعد جاری کردہ بیانات میں وکلاء اور جے کے ایل ایف کی قیادت نے مؤقف پیش کیا کہ یہ پٹیشن ایک نمائندہ کارروائی ہے، جس کا مقصد عالمی اداروں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ یاسین ملک کے ساتھ ہونے والی کارروائیاں صرف ایک شخص کی مخالفت نہیں بلکہ ایک سیاسی موقف کو خاموش کروانے کی کوشش ہیں۔

اس عمل نے ایک بار پھر سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا حقِ آزادی اور سیاسی اظہار رائے کو جرم قرار دے کر سماجی اور قانونی تنہائی میں ڈال دینا درست ہے؟یاسین ملک کی جدوجہد کا مخصوص نکتہ یہ رہا ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر کےمسلے کے حل کے لیے امن کے راستے کی بات کرتے آئے ہیں تشدد کی تائید سے بالاتر ہو کر سیاسی، اخلاقی اور انسانی جواز کے تحت لوگوں کے بنیادی حق آزادی کی بحالی کو ترجیح دینے کی بات کرتے ہیں۔

ان کا مؤقف واضح ہے کہ جموں کشمیر کا مسئلہ بندوق یا محکمانہ حکم سے حل نہیں ہو سکتا؛ اس کا حل انصاف، مذاکرات اور عوامی مرضی کے احترام سے ممکن ہے۔ یہی انسانی، اخلاقی اور سیاسی بیانیہ ہے جس "جرم” نے انہیں بھارت جیسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کے قانون کے تحت قید تنہائی میں تہاڑ جیل میں پابند سلاسل کر رکھا ہے۔تاہم ریاستی اور عدالتی کارروائیاں، سخت سیکیورٹی پالیسیوں اور لمبی عدالتی کڑیاں بھی ان کی آواز کو بند یا کمزور نہیں کر سکیں۔

ایک عام سیاسی قیدی کی ذاتی آزادی، معقول طبی سہولیات اور منصفانہ قانونی تقاضے انسانی بنیادی حقوق کے ضمن میں آتے ہیں اور جب کسی بھی ملک کا عدالتی نظام ان میں کمی دکھائے تو بین الاقوامی نگرانی اور شفاف جانچ اس کا فطری جواب بنتا ہے۔جبکہ محمد یاسین ملک ایک انفرادی آواز نہیں بلکہ ایک قوم کی آواز ہیں۔ یوں یاسین ملک کا کیس صرف ایک فرد تک محدود نہیں۔ وہ ایک بڑی قومی تحریک کے راہنما ہیں اورجب ایک رہنما کو تنہائی میں رکھا جائے، تو اس کے اثرات وسیع ہوتے ہیں۔

اسی لیے لاء فرم کے توسط سے کارروائی کا مقصد صرف سزا کو چیلنج کرنا نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کو جگانا اور یہ واضح کرنا ہے کہ حقوقِ انسانی پر آنیوالی کوئی بھی خلاف ورزی بین الاقوامی سطح پر توجہ طلب ہے۔جموں کشمیر کے مسئلے کا حل آسان نہیں یہ جغرافیائی، تاریخی، سیاسی اور جذباتی سطحوں پر پیچیدہ ہے۔ مگر انصاف کی بنیاد پر قائم کی گئی عالمی قانونی کارروائیاں اس پیچیدگی میں روشنی ڈال سکتی ہیں، اس حوالے سے بین الاقوامی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد میڈیا کا کلیدی کردار بنتا ہے کہ معاملات کو حقائق کی روشنی میں دیکھا جاۓ، اور جہاں نقصان ہو وہاں انصاف کی بحالی کے عمل کو تقویت دینا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے ۔

یاسین ملک کی موجودہ صورتِ حال یاد دلاتی ہے کہ کسی بھی سیاسی مسئلے کا حل صرف طاقت یا دباؤ کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔ انسانی وقار، بنیادی آزادیوں اور عوامی نمائندگی کے تقاضے ایسے ستون ہیں جن کے بغیر پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ ستون مضبوط نہیں ہوں گے، تنازعات کے حل وقتی اور غیرمسلسل رہیں گے۔آج یاسین ملک قید میں ہیں؛ کل شاید وہ یا ان کے نظریات کسی مذاکراتی میز پر سنبھالے جائیں مگر اس سے قطع نظر کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

ایک بات واضح ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات، اُن کے حقوق اور اُن کا سیاسی مستقبل عالمی ضمیر اور قانون کے دائرے میں رہ کر زیرِ بحث رہنا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو مستقل امن اور باعزت حل کی جانب لے جائے گا۔

ایک عظیم سیاسی قدم تب ہی معنی خیز ہوتا ہے جب وہ قانونی، اخلاقی اور عوامی قبولیت میں جڑا ہوا ہو۔ اس تناظر میں وہ اقدامات جو عالمی عدالتی فورمز تک معاملہ پہنچاتے ہیں اہمیت رکھتے ہیں چاہے وہ کسی ایک فریق کے لیے سود مند ہوں یا عمومی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ برطانیہ کی ایک مشہور بین الاقوامی لاء فرم کے ذریعے اٹھایا گیا معاملہ صرف ایک قانونی فائل نہیں، بلکہ ایک عالمی امتحان کی زنجیر ہےکیا بین الاقوامی برادری حق و انصاف کے تقاضوں کو سنجیدگی سے لے گی، یا اس معاملے کو مقامی سیاست کے زندان میں چھوڑ دیا جائے گا؟

جموں کشمیر کی منزلِ آزادی دور ہےاور پیچیدہ ہےمگر جو سوالات آج اٹھائے جا رہے ہیں قانونی شفافیت، انسانی حقوق، اور عوامی نمائندگی، وہ مستقبل کے امن کے لیے لازمی ہیں۔ تہاڑ کی دیواروں کے پیچھے موجود یہ آواز اس لیے خاموش نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہر خاموشی ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے۔ انصاف کو نظرانداز کر کے امن کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ انصاف اور امن کو ساتھ ساتھ قائم رکھ کر ایک دیرپا مستقل اور مستحکم حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

اس تحریر میں پیش کئے گئے خیالات وآراء لکھاری کے ذاتی ہیں ۔ ادارے کا ان سے متفق ہوناضروری نہیں ،اور نہ ہی یہ ادارے کے پالیسی کا اظہار ہیں۔ادارہ کاشگل نیوز

Share this content: