بند کمروں کی سیاست اور عوامی اعتماد سے محروم انوار الحق کی حکومت،ایک تجزیہ ۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست ہمیشہ ایک محدود دائرے میں گھومتی رہی ہے۔ یہاں عوام کا سیاست سے تعلق زیادہ تر صرف انتخابات تک محدود رہتا ہے، جب وہ ووٹ ڈال کر اپنے نمائندوں کو قبیلے، برادری یا علاقے کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں۔ اس کے بعد فیصلے اسمبلی کے ایوانوں یا اسلام آباد کے کمروں میں طے پاتے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں کے صدر اور وزیراعظم کا انتخاب اکثر پاکستان کی مرضی سے ہوتا ہے، نہ کہ عوامی خواہش سے۔ ایسے ہی پس منظر میں اپریل 2023 کی ایک رات، چودھری انوارالحق اچانک وزیرِاعظم منتخب کر لیے گئے۔ یہ فیصلہ اتنا غیر متوقع تھا کہ خود اسمبلی کے اراکین بھی حیران رہ گئے۔ تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کو اسمبلی کے 48 ووٹ ملے (بتایا جاتا ہے کہ ایک فون کال پر تمام اسمبلی ممبران نے ووٹ دیا)۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس وقت حزبِ اختلاف مکمل طور پر غائب تھی، جو ایک اور پہلو سے منفرد واقعہ تھا۔

انوارالحق اس وقت کسی سیاسی جماعت کے نمائندہ نہیں تھے۔ نہ پیپلز پارٹی، نہ مسلم لیگ، نہ تحریک انصاف کے۔ لیکن بڑی جماعتوں اور فاروڈ بلاک نے کسی نہ کسی مفاد کے تحت ان کی حمایت کی۔ یوں ایک ایسا شخص وزیرِاعظم بن گیا جو بظاہر اس وقت امیدوار بھی نہیں تھا۔ یہ سب درپردہ سیاسی جوڑ توڑ کا نتیجہ تھا۔

اقتدار ملنے کے بعد انوارالحق نے وعدہ کیا کہ وہ عوامی خدمت اور شفاف حکمرانی کے ذریعے ایک نئی روایت قائم کریں گے، مگر یہ وعدے جلد ہی کمزور ثابت ہوئے۔ ان کی حکومت عوامی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہی۔ ترقیاتی منصوبے کاغذوں سے آگے نہ بڑھ سکے، بیوروکریسی پر گرفت کی کوششیں کمزور رہیں، اور عوامی رابطے تقریباً ختم ہو گئے۔

اب صورتحال اس حد تک جا پہنچی کہ ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ نے خود حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کر کے مالی بے ضابطگیوں اور غبن کے الزامات عائد کیے اور استعفیٰ دے دیا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کی کابینہ میں صرف مفاد پرست عناصر موجود تھے، جو اقتدار کے فائدے کے لیے جمع تھے، نہ کہ عوامی خدمت کے جذبے سے۔ حکومت کے اندر اختلافات نے ان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔

دوسری جانب، عوام میں تمام سیاسی جماعتوں پر بداعتمادی بڑھتی گئی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی عوامی حقوق کی تحریک، جس نے کبھی کسی کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ نظام کی بہتری، عوامی حق حکمرانی اور وسائل پر حق ملکیت کا مطالبہ کیا، نے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں پر عوام کی بے اعتمادی کو ایک منظم احتجاج میں بدل دیا۔ تینوں ڈویژنز کی سڑکوں پر عوام اپنے حقوق کے لیے نکل آئے، جبکہ حکومت بے بس نظر آئی۔ عوامی دباؤ نے تمام سیاسی جماعتوں کو پسِ منظر میں دھکیل دیا اور واضح کر دیا کہ اب فیصلے صرف اسمبلی میں نہیں بلکہ عوام کے میدان میں ہوں گے۔

چودھری انوارالحق کی سب سے بڑی ناکامی یہی تھی کہ وہ عوام کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم نہ کر سکے۔ ان کی سیاست ایوانوں تک محدود رہی، جب کہ عوامی مسائل ان ایوانوں سے باہر بھڑک اٹھے۔ بیانات، وعدے اور اعلانات تو ہوتے رہے، لیکن عملی نتائج کہیں دکھائی نہ دیے۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت عوامی حمایت سے محروم رہی۔ اقتدار کے ایوانوں میں اب ان کے خلاف عدم اعتماد کی فضا بھی بن چکی ہے۔

اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ آزاد کشمیر کے اُن وزرائے اعظم میں شامل ہو جائیں گے جنہوں نے اقتدار تو حاصل کیا مگر عوام کا اعتماد کھو دیا۔ حالانکہ ان کے پاس بہترین موقع تھا۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جو حکومت عوام کے احساسات کو نظرانداز کرتی ہے، وہ زیادہ دیر نہیں چلتی۔

چودھری انوارالحق کے لیے موقع بھی اور وقت بھی تھا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کریں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ فوری طور پر عوامی چارٹر آف ڈیمانڈ کو عملی جامعہ پہنانے کے اقدامات کریں، اور اگر جانا ہی ہے تو عوام کے دلوں میں جگہ بنا کر جائیں۔ بصورتِ دیگر، وہ ایک ایسی حکومت کی علامت بن جائیں گے جو بند کمروں کے فیصلوں سے بنی، مگر جب خاتمے کا وقت آیا تو بنانے والے بھی دباؤ برداشت نہ کر سکے۔

Share this content: