نیویارک کے مسلم سوشلسٹ میئر، نئی تاریخ اور چیلنجز۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

دنیا کی سیاست بدل رہی ہے اور آج ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے اور بااثر شہر نیویارک نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس نے عالمی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک مسلم، امیگرنٹ اور سوشلسٹ نظریات رکھنے والے رہنما، ظہران ممدانی، امریکی صدر اور طاقتور کاروباری حلقوں کی مخالفت کے باوجود نیویارک کے میئر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ جیت محض ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس نے دنیا بھر کے ترقی پسند طبقات میں نئی امید پیدا کر دی ہے۔

ظہران ممدانی 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بعدازاں امریکہ منتقل ہو گیا، جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور سیاست میں قدم رکھا۔ وہاں سے ان کی پہچان ایک بااصول، صاف گو اور عوام دوست رہنما کے طور پر اُبھری۔ وہ ہمیشہ عام شہری کے مسائل کو اپنی سیاست کا مرکز بنائے رہے۔ نیویارک میں بڑھتے ہوئے کرایوں، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمزوری، مزدوروں کے حقوق، چائلڈ کیئر اور ماحولیاتی تحفظ جیسے موضوعات اُن کے ایجنڈے میں نمایاں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ

“شہر اُن لوگوں کا ہونا چاہیے جو اسے چلاتے ہیں، نہ کہ اُن کا جو اس سے منافع کماتے ہیں۔”
یہی سوچ اُنہیں نیویارک کے سب سے بڑے منصب تک لے آئی۔

نیویارک جیسا شہر، جہاں سرمایہ، سیاست اور میڈیا ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہیں، وہاں ایک سوشلسٹ رہنما کا کامیاب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ امریکی صدر سمیت کئی قومی شخصیات نے ان کی پالیسیوں پر تنقید کی، حتیٰ کہ ان کی شہریت پر بھی سوال اُٹھائے گئے۔ مگر عوام نے روایتی طاقتوں کے دباؤ کو رد کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے واضح پیغام دیا کہ اب نیویارک ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ عوام نے ظہران ممدانی کو چنا کیونکہ وہ کسی خاص طبقے کے نمائندے نہیں بلکہ پورے شہر کی آواز بن کر سامنے آئے۔

ان کی انتخابی مہم چند بنیادی نکات پر مبنی تھی جن میں کرایہ داروں کے لیے رہائش کی قیمتوں کو منجمد کرنا، سستے گھروں کی فراہمی، پبلک بسوں کو مفت یا کم قیمت پر چلانا، مہنگائی پر قابو پانا اور چائلڈ کیئر کی سہولت شامل تھی۔ یہ نکات روایتی امریکی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح کے قریب ہیں۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس نے ظہران ممدانی کو ایک عوامی رہنما کے طور پر ممتاز کیا۔

تاہم جیت کے ساتھ ہی چیلنجز کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ نیویارک جیسے شہر کو چلانا کسی ایک نظریے کے سہارے ممکن نہیں۔ ظہران ممدانی کو اب ان طاقتور نظامی رکاوٹوں کا سامنا ہو گا جو دہائیوں سے شہر پر اثر انداز ہیں۔ کارپوریٹ لابیاں، مالیاتی ادارے، رئیل اسٹیٹ کمپنیاں اور سیاسی مفادات اُن کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ پناہ گزینوں کے مسائل، بے گھری، نسلی تفریق، پولیس اصلاحات اور معاشی دباؤ جیسے پیچیدہ معاملات میں اُن کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا۔ دنیا بھر کی نظریں اب اُن پر ہیں کہ کیا وہ اپنے نظریات کو عملی شکل دے پائیں گے یا یہ جیت محض علامتی ثابت ہوگی۔

ظہران ممدانی کی کامیابی صرف نیویارک کی سیاست کا واقعہ نہیں بلکہ ایک عالمی علامت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امیگرنٹ، مسلمان یا کسی اقلیت سے تعلق رکھنے والا فرد بھی شفاف سیاست، محنت اور عوامی خدمت کے ذریعے دنیا کے طاقتور ترین عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ اُنہوں نے یہ باور کرایا کہ دیانت، وژن اور عوامی ربط کے ساتھ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی عبور کی جا سکتی ہے۔ ان کی جیت نے دنیا بھر کے نوجوانوں، خاص طور پر متوسط طبقے کے دلوں میں نئی امید جگائی ہے جو سمجھتے ہیں کہ نظام ہمیشہ طاقتوروں کا کھیل ہے۔

یہ جیت یقیناً تاریخ کا ایک روشن باب ہے، مگر اصل تاریخ اب لکھی جانی ہے۔ ظہران ممدانی کے سامنے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو حقیقت میں کیسے بدلتے ہیں۔ سیاست میں نظریہ آسان ہوتا ہے، مگر عمل مشکل۔ اگر وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے عوامی توقعات پوری کر گئے تو نیویارک ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔ اس صورت میں یہ کامیابی صرف نیویارک کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی جیت ہوگی — اُن تمام لوگوں کی جو انصاف، مساوات اور شفاف قیادت کے خواب دیکھتے ہیں۔

دنیا دیکھ رہی ہے، اور تاریخ انتظار کر رہی ہے کہ ظہران ممدانی صرف ایک میئر نہ رہیں بلکہ ایک نئے سیاسی دور کے معمار ثابت ہوں۔

٭٭٭

Share this content: