جامعہ پونچھ میں آل پاکستان اوپن میرٹ پر داخلے، نامزدگی پر آئے گلگت بلتستان کے طلبہ واپس بھیج دیے گئے

راولاکوٹ / کاشگل نیوز

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی عدالت العالیہ کے اگست2025میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے فیصلے پرعملدرآمد کرتے ہوئے جامعہ پونچھ نے آل پاکستان اوپن میرٹ پر داخلے کیے ہیں۔

گلگت بلتستان کے ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن کی جانب سے نامزدگی کے لیٹر (نامینیشن لیٹر)حاصل کر کے جامعہ پونچھ میں داخلے کے لیے طویل سفر کر کے پونچھ پہنچنے والے گلگت بلتستان کے طلبہ کو داخلہ نہیں مل سکا اور وہ واپس چلے گئے ہیں۔ اسی طرح اوپن میرٹ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مختلف شہروں سے ایک بڑی تعداد میں طلبہ میرٹ پر داخلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور پونچھ سمیت جموں کشمیر کے دیگر اضلاع کے طلبہ داخلے حاصل کرنے سے محروم ہو گئے ہیں۔ اب وہ طلبہ بھی پاکستان کی مختلف جامعات میں انتہائی مہنگی تعلیم حاصل کرنے پرمجبور ہونگے۔ اس کیفیت میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے سے بھی محروم ہو جائے گی۔

16اگست2025ء کو عدالت العالیہ کے جج جسٹس سردار اعجاز خان نے بار کونسل اور سپریم کورٹ و ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن سمیت 6رٹ پٹیشنز پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ملازمتوں پربھرتیوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے مقرر ہر طرح کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جموں کشمیر میں سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں کے لیے سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر اوپن میرٹ کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ اس کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ عبوری آئین (ایکٹ)1974ء تمام سٹیٹ سبجیکٹس کو برابری کا حق دیتا ہے۔ سرکاری ملازمتیں نوکری دینے کے ذریعے کی بجائے معیاری سروسز فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ان پر صحت مند مقابلے کے نتیجے میں اہل ترین افراد کو بھرتی ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنا کام اپنی بہترین اہلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر سرانجام دے سکیں۔

دوسری جانب تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے اوپن میرٹ کا طریقہ کار اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم اس موقع پر سٹیٹ سبجیکٹ کا تذکرہ فیصلے میں نہیں کیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی آل پاکستان اوپن میرٹ کی بنیاد پر داخلے کرنے کا سرکلر جاری کیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں جہاں یہ لکھا گیا ہے کہ عبوری آئین تمام سٹیٹ سبجیکٹس کے لیے ہے، وہاں تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے کس آئین کے تحت پاکستانی طلبہ کو داخلے ملنے چاہئیں، اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جس وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی اس کی من پسند تشریح کرتے ہوئے اس خطے پرعبوری آئین کے نام پر نافذ ایکٹ74 اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے مغائر داخلہ پالیسی اپنائی ہے۔

اسی طرح عدالتی فیصلے میں پاکستان کی مختلف جامعات میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لیے مختص نشستوں کے لیے بھی اوپن میرٹ کی بنیاد پر نامزدگیوں کا حکم سنایا ہے۔ تاہم اس میں بھی یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ اوپن میرٹ سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر ہوگا، یا یہاں بھی آل پاکستان اوپن میرٹ کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔

عدالتی فیصلے میں تمام کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے ساتھ ساتھ معذوروں کے لیے کوٹہ مقرر کرنے اور اس پر بھی تمام سٹیٹ سبجیکٹس کو اوپن میرٹ کی بنیاد پر مساوی حق دیتے ہوئے بھرتیوں کا حکم دیا ہے۔

بظاہر عدالتی فیصلے کی کنسٹرکشن کو دیکھا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ داخلے بھی سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر ہی اوپن میرٹ کے ذریعے کیے جانے کا حکم ہے۔ اسی طرح پاکستان کی جامعات میں مختص جموں کشمیر کے طلبہ کے کوٹے پر بھی سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر ہی اوپن میرٹ کے ذریعے انتخاب کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم فیصلے میں واضح طور پر یا صاف الفاظ میں سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر داخلے دینے کا تذکرہ نہیں ہے، جس سے یونیورسٹی انتظامیہ نے فائدہ اٹھایا ہے۔

سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر بھی اگر اوپن میرٹ کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، پھر بھی گلگت بلتستان کے طلبہ کے لیے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے دروازے مکمل طور پر بند ہوتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ کو ختم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس طرح گلگت بلتستان کے طلبہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی جامعات میں اوپن میرٹ کی بنیاد پر آل پاکستان مقابلہ کر کے داخلہ تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر اوپن میرٹ کی بنیاد پر بھی وہ داخلہ حاصل نہیں کر سکتے۔

ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن گلگت بلتستان کے مطابق اس سے قبل گلگت بلتستان کے طلبہ کے لیے جامعہ پونچھ میں 96، مسٹ میرپور میں 96، جامعہ کشمیر مظفرآباد میں 140، جامعہ کوٹلی میں 216اور جامعہ بھمبر میں 6 نشستیں مختص کی گئی تھیں۔یہ مجموعی طورپر 540نشستیں ہیں، جن پر ہر سال گلگت بلتستان سے طلباء و طالبات نامزد ہو کر آتے تھے۔جامعات میں ان نشستوں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان شعبوں میں داخلے کے لیے گلگت بلتستان کا ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن ٹیسٹ انٹرویو لینے کے بعد نامینیشن لیٹر دے کر بھیجتا تھا، جس کی بنیاد پر ان طلبہ کو ان جامعات میں داخلے ملتے تھے۔ اس بار بھی گلگت بلتستان سے متعدد طلبہ نامینیشن لیٹر لے کر سیکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد راولاکوٹ پہنچے تھے، لیکن انہیں یونیورسٹی نے داخلے دینے سے انکار کر دیا۔ یوں وہ طلبہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد اب واپس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

Share this content: