پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر سے لاکھوں افراد رزقِ حلال کی تلاش میں مشرقِ وسطیٰ، یورپ، امریکہ،کینیڈا اور دیگر ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی قربانیوں،خون پسینے اور جدوجہد سے زرمبادلہ کے ذخائر میں سالانہ اربوں ڈالر کا اضافہ کرتے ہیں۔ ان کی بھیجی ہوئی ترسیلاتِ زر سےمعیشت رواں رہتی ہے۔
یہ محنت کش معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ مگر افسوس، وطن واپسی پر انہیں وہ عزت اور سہولت نہیں ملتی جس کے وہ مستحق ہیں۔جب یہ اوورسیز اپنے پیاروں سے ملنے وطن لوٹتے ہیں، تو ان کے ساتھ لایا گیا موبائل فون پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (PTA) کی منظوری کے بغیر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس منظوری کے لیے بھاری ٹیکس،جو بعض اوقات لاکھوں روپے تک پہنچ جاتا ہے، ادا کرنا لازم ہے۔
یعنی ایک عام محنت کش جو خلیج یا یورپ میں روزی کماتا ہے، وطن واپسی پر صرف اس لیے پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کا ذاتی موبائل فون وطن پہنچتے ہی بند ہو جاتا ہے۔یہ عمل نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک ظالمانہ مالی بوجھ بھی ہے، جو ان ہی لوگوں پر ڈالا جا رہا ہے جن کی ترسیلات زر کے سہارے ملکی معیشت قائم ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں اس کے برعکس دنیا کے کئی ممالک اپنے بیرونِ ملک شہریوں کو سہولیات دینے میں مثال بنے ہوئے ہیں۔بھارت ،فلپائن ،بنگلہ دیش ،نیپال ور سری لنکا اپنے اوورسیز کو واپسی پر کئی طرح کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کے بیرونِ ملک محنت کشوں کے لیے کسٹم ڈیوٹی میں نرمی اور ٹیکس استثنا کے قوانین بھی موجود ہیں۔ مگر پاکستان اور اسکے زیر انتظام جموں کشمیر کے لاکھوں اوورسیز کو ہر طریقے سے صرف لوٹا جاتا ہے ۔
جب سیاسی راہنما اور حکمران اپنی تقاریر میں یا اپنی اعزاز میں دی گئی تقریبات میں دنیا بھر میں پھیلے اپنے محنت کش شہریوں پر فخر کا اظہار کرتے ہیں ، تو پھر انہیں واپس آنے پر سزا کیوں دی جاتی ہے؟اوورسیز سالانہ تقریباً 30 ارب ڈالر سے زائد وطن بھیجتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کی برآمدات سے بھی زیادہ ہے۔مگر جب وہ چھٹی پر آتے ہیں، تو انہیں ایئرپورٹ سے لے کر PTA تک ذلیل ہونا پڑتا ہے۔
کیا یہی ان کی محنت کا صلہ ہے؟حکومت کو چاہئیے کہ اپنےاوورسیز کو قوم کے سرمایہ کے طور پر تسلیم کرے، نہ کہ ریونیو کے ذریعے کے طور پر۔ حکومت کو چاہئیے کہ اوورسیز کے ذاتی استعمال کے لیے لائے گئے موبائل فونز پر PTA ٹیکس فوری طور پر ختم کرے ۔اگر حکومت واقعی اوورسیز کو معیشت کے ستون سمجھتی ہے، تو پھر انہیں احترام، آسانی، اور سہولت دی جائے، نہ کہ واپسی پر جرمانے اور ٹیکس کا تحفہ۔
Share this content:


