انتظامیہ کی ملی بھگت یا نااہلی: جموں کشمیر دو نمبر اشیاء خوردونوش کی منڈی بن گیا؟

مظفرآباد/میرپور/راولاکوٹ سے کاشگل نیوز کی خصوصی رپورٹ

عوام کی صحت داؤ پر ہے، پنجاب اور کے پی کے سے غیر معیاری مال کی آزاد کشمیر میں دھڑلے سے فروخت جاری ہے ۔

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں ملک کے دوسرے حصوں، خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا (KPK) سے آنے والی غیر معیاری اور جعلی اشیاء خوردونوش کی منڈی بن چکا ہے۔ چھوٹے دکانداروں سے لے کر ہول سیل ڈیلرز تک، ہر جگہ "دو نمبر مال” کی بھرمار نے نہ صرف مقامی معیشت کو تباہ کر دیا ہے بلکہ سب سے بڑھ کر عوام کی صحت کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ صورتحال حکومتی اداروں کی مبینہ ملی بھگت یا انتہائی نااہلی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔

سنگین صورتحال: صحت کے لیے خطرہ

سروے اور دستیاب رپورٹس کے مطابق، جموں و کشمیر کے طول و عرض میں، خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں، غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کی فروخت عروج پر ہے۔ ان میں شامل ہیں:

  • ملاوٹ شدہ دودھ: تازہ دودھ کے نام پر پاؤڈر اور یوریا کھاد ملا ہوا دودھ فروخت کیا جا رہا ہے، جو معدے کی بیماریوں اور دیگر صحت کے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔
  • جعلی گھی اور کوکنگ آئل: بڑے برانڈز کے نام پر غیر تسلی بخش اور مضر صحت گھی اور کوکنگ آئل فروخت ہو رہا ہے جن کی لیبارٹری رپورٹس بھی غیر تسلی بخش پائی گئی ہیں۔
  • غیر معیاری مصالحہ جات اور فاسٹ فوڈ آئٹمز: ٹاٹری اور غیر معیاری رنگوں سے تیار کردہ مصالحے اور بچوں کے لیے غیر صحت بخش سستے فاسٹ فوڈ آئٹمز گلی محلوں کی دکانوں پر عام ہیں۔
  • باہر سے گوشت کی سمگلنگ: سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، بیرون اضلاع سے غیر معیاری اور غیر حفظان صحت کے اصولوں کے تحت لایا گیا گوشت اور قیمہ ضبط کیا گیا ہے۔
  • جعلی مشروبات اور پانی: بوتلیں بند پانی اور مشروبات بھی معیارات پر پورا نہیں اترتے، جن پر جعلی لیبل لگا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔

انتظامیہ کا کردار: ملی بھگت یا نااہلی؟

یہ بات قابل غور ہے کہ غیر معیاری اشیاء کی اتنی بڑی مقدار میں ترسیل اور فروخت مقامی انتظامیہ، خصوصاً فوڈ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناکامی کے بغیر ممکن نہیں۔ عوام کی جانب سے یہ سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں:

غیر رجسٹرڈ کاروبار: ہزاروں میڈیکل اسٹورز سمیت بہت سے فوڈ بزنس آپریٹرز بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں، جس سے حکومتی کنٹرول کمزور پڑتا ہے۔

  • سخت قوانین پر عمل درآمد میں سستی: اگرچہ جموں وکشمیر فوڈ اتھارٹی (AJKFA) کی جانب سے وقتی کارروائیاں کی جاتی ہیں، جن میں دکانیں سیل کرنا اور بھاری جرمانے عائد کرنا شامل ہیں، مگر مسلسل نگرانی اور طویل المدتی اقدامات کا فقدان ہے۔
  • کمرشل مفادات کا ٹکراؤ: بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس دھندے میں بڑے مافیا ملوث ہیں جو مقامی اداروں کے ساتھ "ملی بھگت” کر کے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔
  • غیر مؤثر سزائیں: کچھ رپورٹس کے مطابق ملاوٹ کرنے والوں کے لیے مقرر کردہ سزائیں (جرمانہ اور قید) اس سنگین جرم کی شدت کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔

عوام کا مطالبہ اور آئندہ کا لائحہ عمل

جموں و کشمیر کے عوام نے حکومت اور متعلقہ حکام سے فوری اور سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین صحت خبردار کر چکے ہیں کہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو فوڈ پوائزننگ اور دائمی بیماریاں ایک قومی صحت کا بحران بن سکتی ہیں۔

مطالبات میں شامل ہیں:

  • بڑی فیکٹریوں اور مافیا کے خلاف سخت کریک ڈاؤن: پنجاب اور کے پی کے سے آنے والے غیر معیاری مال کی سپلائی لائن کو مکمل طور پر کاٹا جائے۔
  • فوڈ سیفٹی قوانین پر سختی سے عمل درآمد: ریگولیشن اور جرمانے میں شفافیت اور تسلسل لایا جائے۔

انتظامیہ کا محاسبہ کرکہ ذمہ دار سرکاری افسران کی ملی بھگت یا غفلت ثابت ہونے پر ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ فوڈ کورٹس کا قیام کرکہ سزا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے خصوصی فوڈ کورٹس قائم کی جائیں۔

جموں و کشمیر کے لوگوں کی صحت اور معیارِ زندگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے کس قدر سنجیدگی اور قوت ارادی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

Share this content: