20اپریل 2023، نہ جانے کیسی شب تھی۔
رات کے آخری پہر رعایا خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوئی جب مظفرآباد کے ایک قدیمی حمام کا لرزتا دروازہ خامشی سے کھلتا ہے۔ وہاں، جمہوریت، نظریات، ایمانداری، قانون کی حکمرانی، انصاف اور عوامی حاکمیت جیسے تمام بت بے لباس ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ گویا ان کا اصل چہرہ، جسے وہ دہائیوں سے چھپائے بیٹھے تھے، اب بے نقاب ہو چکا ہے۔
جمہوریت کی لاش کندھوں پر اٹھائے گورکن، تاریخ کے قبرستان کی جانب بڑھتے ہیں۔ راستے میں سب سے پہلے بتوں کے سردار کے کندھے سے نظریات کا لاشہ زمین پر گرتا ہے۔شاید بوجھ زیادہ تھا، یا وفاداری کمزور۔
تقریباً رات ایک بجے، انہی گورکنوں کے ہاتھوں اندھیرے میں جمہوریت کو منوں مٹی تلے دفنا دیا جاتا ہے۔
اب بے لباس بتوں میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ وہ نہ اپنے ماضی پر بات کرتے ہیں، نہ حال سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ سب نظریں چراتے ہیں، نگاہیں نہیں ملاتے،کیونکہ اب سب ننگے ہیں۔
بتوں کا سردار اپنی نئی پوشاک سنبھالتے ہوئے دیگر بتوں سے خطاب کرتا ہے:
"مجھے اس بات کا قطعاً شوق نہیں کہ میری قبر کے کتبے پر اقتدار کی مدت لکھی جائے۔ مجھے کوئی ہٹا نہیں سکتا، میں خود جاؤں گا۔ قانون کی حکمرانی پر میرا پورا یقین ہے۔”
تمام بت سر جھکائے، منہ چھپائے تالیاں بجاتے ہیں۔ اس بیان کو من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔
اس کے بعد ان برہنہ بتوں کو ایک پرانا پھٹا آمرانہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ لباس پہنتے ہیں، سکھ کا سانس لیتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں سردار کے پاس جا کر اسے تسلی دیتے ہیں:
"آپ کے انتخاب میں ہمارا بڑا کردار رہا ہے۔”
لباس پہننے کے ساتھ ہی ان بتوں میں غیبی طاقتیں آ جاتی ہیں۔ اب وہی بت سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں۔ سردار کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ حرفِ آخر اور قانون کا درجہ رکھتا ہے۔
کابینہ کو سردار سے کوئی شکوہ نہیں، نہ سردار کو اپنی کابینہ سے۔ اور اگر رعایا میں سے کوئی زبان کھولنے کی جرات کرے، تو یہی بت اس کا منہ نوچنے کو دوڑتے ہیں۔ اکثر اوقات، منہ بند رکھنے کے لیے باقاعدہ قانون بھی لاگو کر دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی روٹی مانگنے کی غلطی کر بیٹھے، تو بت آسمانی امداد کی دعا کرتے ہیں۔اور پھر روٹی کی جگہ سوٹی ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
ان بتوں کی سلطنت میں قانون کی بھی ایک مضبوط قبر بنا دی گئی ہے، جس میں اعلیٰ معیار کا فوجی سیمنٹ استعمال کیا گیا ہے۔ جب تک یہ سیمنٹ باقی ہے، قانون اسی قبر میں دفن رہے گا۔
رعایا اگر کبھی قانون کی تلاش میں نکلے، تو اس کا لکھا ہوا ایک صفحہ مہینوں فائلوں میں گھومتا ہے۔ قانون، بہرحال، نظر نہیں آتا۔
یوں تو بتوں نے نظامِ قوانین خوب واضح کر رکھا ہے، لیکن خود ان کے لیے اصول کچھ اور ہیں۔ ان کی کابینہ کے اراکین منٹو کے قول پر خوب عمل پیرا ہیں:
"ہم دوسروں کے دیے ہوئے نسخے موضوعِ بحث بناتے ہیں۔”
بس یہی نہیں، اس سرکار نے چند قصیدہ گو بھی تعینات کر رکھے ہیں، جو وقتاً فوقتاً اپنی اجرت کا حق ادا کرتے ہیں۔
اب وقت کا دھارا بدل چکا ہے۔ گھڑی کا پنڈولم الٹا گھوم رہا ہے۔ یہ کابینہ دراصل وہی پرانا نظام ہے، جسے ہم صدیوں سے بادشاہت کہتے آئے ہیں،بس لباس بدل گیا ہے، چہرے نہیں۔
٭٭٭
Share this content:


