عورت کی شمولیت کے بغیر کوئی تحریک حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی ۔۔۔ جموں کشمیر کی خاتون سیاسی جہدکار رابعہ رفیق سے خصوصی انٹرویو

رابعہ رفیق پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والی ایک لفٹسٹ سیاسی جہد کار ہیں جو جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔وہ محکوم اقوام کی حقوق وانصاف ،برابری و مساوات اور خواتین کی خودمختاری کے لئے جدوجہد کواپناشعار مانتی ہیں۔کاشگل نیوز ٹیم نے جموں کشمیر میں خواتین کی سیاست اور موجودہ عوامی تحریک سمیت ان سے ان کی ذاتی زندگی اورسیاسی جدوجہدپر ایک انٹرویو کیا ہے جس کا مقصد پدرانہ سماج میں خواتین کی خودمختاری اور اس کی وجود کو حقیقی طور پر تسلیم کرناہے۔ہم اس انٹرویو کے لئے رابعہ رفیق کے بہت ممنون ہیں،ادارہ کاشگل نیوز

کاشگل نیوز: آپ اپنے بارے میں ہمیں مختصر بتائیں، کہاں تک تعلیم حاصل کی؟ اور ویل چیئر سے تعلیم کی حصول کے لئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

رابعہ رفیق: میرا نام رابعہ رفیق ہے اور میرا تعلق پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع باغ سے ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے اردو ادب میں ماسٹر کیا۔
وہیل چیئر سے ہو کر تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل رہا۔ کیونکہ ہمارا خطہ بہت پسماندہ ہے۔ انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے اور اوپر سے پہاڑی علاقہ ہے۔ ایسے میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پانا بہت مشکل تھا۔لیکن میں یہ کر پائی اس کا کریڈٹ میری فیملی کو جاتا ہے جنھوں نے مجھے اور میری زندگی کو کبھی کہیں بھی نظر انداز نہیں کیا، ہمیشہ پہلی ترجیح پہ رکھا اور ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا۔

کاشگل نیوز: آپ نے سیاست کا آغاز کب اور کیسے کیا؟

رابعہ رفیق: مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا اور چونکہ میرا تعلق ایک ترقی پسند گھرانے سے ہے اس لیے کتابیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔ جموں کشمیر کے مارکسی رہنما بیرسٹر قربان علی کا لٹریچر پڑھا تو سیاست کی تھوڑی بہت سمجھ آئی۔ بچپن سے ہی جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی سے منسلک ہوں۔ مزاحمتی سیاست کا آغاز یہی سے کیا۔

کاشگل نیوز: آپ قوم پرستانہ سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور لیفٹ کی سیاست میں کیسے آئیں؟

رابعہ رفیق: قوم پرستی دراصل قومی شائونزم ہے جس میں قومیں خود کو برتر اور دوسری اقوام کو کم تر اور حقیر خیال کرتی ہیں۔ ہم اس تعصب اور جابرانہ سوچ کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن محکوم سماجوں کی اقوام کی برابری اور مساوات کی بنیاد پر جدوجہد کو درست سمجھتے ہیں۔ محکوم اقوام یہ جدوجہد حاکم و جابر طبقے کے خلاف لڑتی ہیں جو اپنی سر زمین، اپنے لوگوں اور محنت کش طبقے سے محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم قومیں، محنت کش طبقہ اور انقلابی قوتیں اس جدوجہد کو درست مانتے ہیں اور ان کی جڑت سے یہ جنگ جیتی جاتی ہے۔

آج کے عہد میں قومی سوال کو طبقاتی سوال سے جوڑے بغیر سامراج کو شکست نہیں دی جا سکتی تا ہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نوآبادیاتی خطوں میں قومی سوال بنیادی ہوتا ہے اور طبقاتی سوال اس سے جڑا ہوتا ہے۔

مارکسی رہنما بیرسٹر قربان علی اور دیگر ترقی پسند مصنفین کا ادب پڑھنے کے بعد بائیں بازو کی سیاست کا آغاز کیا۔

کاشگل نیوز: جموں کشمیر جیسے پسماندہ معاشرے میں انقلابی کام کرنے میں کیسی مشکلات کا سامنا ہے؟

رابعہ رفیق: جموں کشمیر چونکہ ایک محکوم اور پسماندہ خطہ ہے، قومی و طبقاتی جبر موجود ہے۔ ریاست تعلیمی نظام کے ذریعے غلامی کا درس دے رہی ہے، میڈیا حقیقی مسائل سے ہٹ کر قابض کی سہولت کاری کا کردار ادا کر رہاہے۔ ایکٹ 74 کے ذریعے بیرونی قبضے کو دوائم دینے والے قوانین بنائے جا رہے ہیں، تحریر و تقریر کی آزادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آوازوں پہ قدغنیں ہیں۔ ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے پہ ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس لیے جموں کشمیر جیسے پسماندہ خطے میں انقلابی جدوجہد مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

کاشگل نیوز: حالیہ عوامی تحریک میں جموں کشمیر کی خواتین کا کیا کردار رہا ہے؟

رابعہ رفیق: حالیہ عوامی تحریک میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا ہے۔ چاہے دھرنوں کی بات ہو، میٹنگز، احتجاج یا ڈور ٹو ڈور کمپین کی، خواتین ہر جگہ صفِ اول میں موجود رہی ہیں۔ اس تحریک نے لوگوں کو یہ شعور بھی دیا ہے کہ عورت کی شمولیت کے بغیر کوئی تحریک حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔

کاشگل نیوز: آپ کیا سمجھتے ہیں جموں کشمیر میں موجودہ عوامی تحریک ریاستی جبر کا ردِعمل تھا یا قوم پرست اور لفٹ سیاست کے اثرات تھے جو سماج میں پہلے سے پنپ رہے تھے؟

رابعہ رفیق: ریاستی جبر تو یہاں شروع سے ہی موجود رہا ہے لیکن قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاست نے لوگوں کو شعور دیا کہ اس جبر کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنے سے ہی کامیابی حاصل ہو گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے قوم پرست اور بائیں بازو کے لوگوں کی دہائیوں کی محنت ہے۔ ان کی محنت نے لوگوں کو جبر سے انکار کا شعور دیا اور منظم کیا۔

کاشگل نیوز: جموں کشمیر میں جاری عوامی تحریک کو کیا صرف اصلاحات تک محدود رہنا چاہیے یا اقتدار کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے؟

رابعہ رفیق: اصلاحات کسی مسلے کا حقیقی حل نہیں یہ معمولی حاصلات ہیں۔ اس سسٹم میں اتنی سکت نہیں کہ لوگوں کے تمام مسائل حل ہو سکیں۔ یہاں سوال حقِ ملکیت اور حقِ حکمرانی کا ہے۔ اقتدار ریاست کے مظلوم اور محکوم عوام کو منتقل ہو گا تبھی عوام کو حقیقی منزل حاصل ہو گی۔

کاشگل نیوز: عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فورم سے جاری عوامی تحریک اقتدار تک کیسے پہنچ سکتی ہے جبکہ اس کی قیادت کوئی انقلابی پارٹی نہیں کر رہی؟

رابعہ رفیق: مانا کہ تحریک کی قیادت مختلف مکتبہِ فکر کے لوگ کر رہے ہیں لیکن عوام کے شعور کے پیچھے قوم پرست، ترقی پسند اور انقلابی قوتوں کی دہائیوں کی محنت ہے۔ انہیں تحریک کے اندر رہتے ہوئے شعوری مداخلت کے ذریعے تحریک میں موجود موقعہ پرست عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہو گا اور تحریک کو اقتدار کی منتقلی کی طرف لے جانا ہو گا۔

کاشگل نیوز: خطے میں اور بھی قومی اور انقلابی تحریکیں چل رہی ہیں جیسے بلوچ، کرد، کشمیر، کِس نے آپ کو زیادہ انسپائر کیا ہے۔

رابعہ رفیق: کہتے ہیں کہ کسی بھی سماج کے اجتماعی شعور کو پرکھنا ہو تو یہ دیکھو کے وہاں کے لوگ عورتوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں یا ان سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو بلوچ قوم کی عورت وہاں کی انقلابی تحریک کی رہنما ہے، بہادر ہے، اتنے زخم سہہ کر بھی چٹان کی طرح مضبوط ہے، ڈٹ کر کھڑی ہے۔ للکارتی ہے تو اقتدار ایوان لرز جاتے ہیں۔ وہ منظم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بلوچ تحریک نے مجھے زیادہ متاثر کیا۔

کاشگل نیوز: آپ ریاست جموں کشمیر کی خواتین کے سیاسی مستقبل کو کیسے دیکھتی ہیں؟

رابعہ رفیق: جموں کشمیر کی عورت اب انقلابی یا مزاحمتی سیاست کو سمجھنے لگی ہے۔ اُسے دنیا کی انقلابی تحریکوں اور بلوچ عورت کے کردار سے مزید سیکھتے ہوئے انقلابی سیاست کا حصہ بننا ہو گا تبھی وہ اپنی معراج حاصل کر پائے گی۔

کاشگل نیوز: خواتین کی شمولیت کے بغیر معاشرے میں کسی قسم کی مثبت انقلابی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس پدرانہ سماج میں کیا آپ کشمیری خواتین کے لئے امکانات کو دیکھ رہے ہیں؟

رابعہ رفیق: جموں کشمیر کی خواتین یہاں کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں اور جب نصف سے زائد لوگ سماج سے کٹ کر رہیں گے، تعمیر و ترقی میں حصہ نہیں لیں گے تو کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ اُن کی شمولیت کے بغیر یہاں کوئی تحریک یا انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے۔

٭٭٭

Share this content: