باغ / کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں گزشتہ مالی سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بعد استعمال میں 70 میگاواٹ کا اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں 354 میگاواٹ کی بجائے 427 میگاواٹ بجلی استعمال کی گئی۔
اس سے قبل بجلی کی قیمت واپڈا کو 5 ارب 20 کروڑ روپے ادا کی جاتی تھی، جبکہ گزشتہ مالی سال میں 7ارب روپے سے کچھ زیادہ ادائیگی کی گئی۔ رواں مالی سال کے لیے بھی اتنی ہی رقم کی بجلی استعمال کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ محکمہ برقیات کے دیگر اخراجات 5 ارب سالانہ ہوئے ہیں۔ اس طرح 12 ارب روپے بجلی کی خرید، ترسیل اور مرمتی پر سالانہ اخراجات آئے ہیں۔
مالی سال 2022-23 میں بجلی کی فروخت سے 20 ارب روپے جمع کیے گئے تھے اور مالی سال 2023-24 میں بجلی کی فروخت سے 25 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بجلی کی فروخت سے 15 ارب روپے کی رقم جمع کی گئی ہے۔ یوں بجلی کی خرید، ترسیل اور مرمتی وغیرہ پر 12 ارب روپے خرچ کر کے بجلی کے بلوں سے 15 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں اور تین ارب روپے کا منافع حاصل کیا گیا ہے۔ آئندہ سال کے لیے یہ ہدف ساڑھے 19 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بجلی کی فی یونٹ قیمت 12 سے 60 روپے بشمول ٹیکسز مقرر تھی، اور محکمہ برقیات کی ریکوری 20 ارب روپے ہو رہی تھی۔ اب جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت تین اور چھ روپے گھریلو، اور 10 سے 25 روپے کمرشل و انڈسٹریل مقرر ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی ٹیکسوں کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے، تب بھی ریکوری 15ارب ہو رہی ہے۔ یعنی بجلی کئی سو گنا سستی ہونے کے باوجود آمدن میں محض پچیس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ منگلا ڈیم اور دیگر ہائیڈل منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی پہلے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں جاتی ہے، وہاں سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ترسیل ہوتی ہے اور وہاں سے پھر واپس پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں لائی جاتی ہے۔ بجلی کو اسلام آباد کی یاترا کروا کے براستہ پنجاب و کے پی جموں کشمیر میں لانے کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنیاں پہلے 108 ارب روپے بطور سبسڈی، ٹیرف ڈفرنشیل کے نام پر وصول کرتی رہی ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لیے بھی یہ سبسڈی 74 ارب روپے مختص کی گئی ہے۔
اس اربوں روپے کے سبسڈی کے نام پر ہونے والے گھپلے کا راستہ روکنے کے لیے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مظفرآباد یا میرپور میں جموں کشمیر کا گرڈ اسٹیشن قائم کیا جائے۔ مقامی ہائیڈل منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی مقامی ضرورت کے مطابق اس گرڈ میں ترسیل کی جائے اور باقی ماندہ بجلی اسلام آباد کے نیشنل گرڈ کو ارسال کی جائے۔ تاکہ اسلام آباد یاترا کرواتے ہوئے لائن لاسز والے نقصان سے بچا جا سکے، اور اس چکر کو پورا کرنے کے نام پر 7 ارب روپے کی بجلی کے لیے 74 ارب روپے سبسڈی کے نام پر نہ ہڑپ کیے جا سکیں۔ تاہم یہ مطالبہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، توانائی کی وزارتوں کے وزراء، بیوروکریسی اور دیگر طاقتوروں کی دیہاڑیاں لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔
Share this content:


