جدوجہد ،قربانیوں اور معائدے کی ادھوری داستان۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پہاڑوں پر پھیلے شہروں ،چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں پچھلے ڈھائی برس سے ایک مسلسل آواز گونج رہی ہے۔ عوامی حق، عوام کو واپس دو۔ اس آواز کی جڑیں نہ کسی بڑی سیاسی جماعت میں تھیں، نہ کسی بڑے لیڈر کے اعلان میں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے 9 مئی 2023 کی ایک دوپہر سے، راولاکوٹ کے سپلائی بازار کے چند عام لوگوں سے جنہوں نے پلے کارڈز اُٹھا کر ایک چھوٹا سا دھرنا شروع کیا۔ شاید انہیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ ان کا یہ سادہ سا قدم پورے خطے کی سماجی اور سیاسی فضا کو بدل دینے والا ہے۔

مہنگائی، بجلی کے ظالمانہ بل، گندم اور روزمرہ ضروریات کی کمی، بے روزگاری، بدانتظامی اور حکومتی بے حسی برسوں سے عوام کے دلوں میں دبی ہوئی چنگاریاں تھیں۔ سپلائی بازار کے اس دھرنے نے ان چنگاریوں کو پہلی بار ایک واضح شکل دی۔ چند لوگ دھرنے میں شامل ہوئے، پھر یہ تعداد بڑھتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مقامی احتجاج نے پاکستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے تمام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران تھوراڑ سے ایک ایسا نعرہ بلند ہوا جس نے پوری جدوجہد کو ایک نئی روح بخش دی۔ “آواز دو، ہم ایک ہیں۔” یہ نعرہ صرف ایک آواز نہیں تھا، یہ احساس تھا کہ اب انفرادی مسائل کی نہیں، اجتماعی حق تلفی کے خلاف لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ جس نے بھی یہ نعرہ سنا، اس کے دل میں اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا ہوا، اور یوں پورا خطہ ایک نئی وحدت کی طرف بڑھنے لگا۔اب احتجاج میر پور اور مظفر آباد ڈویژن میں بھی شروع ہو چکا تھا ۔

مئی سے ستمبر تک احتجاجوں میں تیزی آتی گئی۔ کہیں جلسے تھے، کہیں ریلیاں، کہیں دھرنے۔ عوام کے اندر غصہ بھی تھا اور امید بھی۔ مگر اس جدوجہد کو ایک منظم سمت درکار تھی۔ یہ ضرورت 16 اور 17 ستمبر 2023 کو مظفرآباد میں پوری ہوئی، جہاں مختلف علاقوں سے آئے نمائندوں نے طویل مشاورت کے بعد ایک متحدہ پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ اسی مشاورت نے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو جنم دیا۔ اس فیصلے نے تحریک کو وہ نظم، قیادت اور اعتماد فراہم کیا جس سے یہ جدوجہد ایک مضبوط عوامی تحریک میں تبدیل ہوئی۔ ڈڈیال سے نعرہ بلند ہوا "بند مطلب بند” ۔اور مظفر آباد نے خون نچھاور کر دیا ۔ یوں پونچھ سے شروع ہونیوالے عوامی حقوق کی تحریک کو میرپور ڈویژن نے آکسیجن اور توانائی دی تو مظفر آباد نے تین ایک سال کے اندر ہی تین نوجوان قربان کر کے تحریک کے عنوان کو جوان ، گرم اور سرخ خون سے عوام کے دل و دماغ پر لکھدیا ۔

لیکن تحریک کا سفر آسان نہ تھا۔ 2023 سے 2025 کے درمیان درجنوں شہادتیں ہوئیں، سینکڑوں زخمی ہوئے،اور بے شمار نوجوان جیلوں کی نذر ہوئے۔ خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، گھروں میں آنسو اور کرب کے سائے گہرے ہوتے گئے، مگر عجیب بات یہ تھی کہ جتنا جتنا ظلم بڑھتا گیا، عوام کے حوصلے بھی اتنے ہی بلند ہوتے گئے۔ اسپتالوں کے کمروں میں زخموں سے چور نوجوان یہ کہتے دکھائی دیتے کہ انہوں نے اپنے مستقبل کے لیے قربانی دی ہے اور وہ اپنے حق کی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

اس دوران حکومت کے ساتھ مزاکرات ہوۓ حکومتی وعدے ہوۓ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کی مصداق صرف ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا مگر عوامی جدوجہد مزید مضبوط ہوتئ گئی ،عوامی غصہ بڑتا گیا اور عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہو کر رہ گیا عوام نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ہی کو اپنا ترجمان مان لیا اور صرف ایک کال پر لبیک کہنا اپنا فرض عین تسلیم کر لیا یوں عوامی دباؤ بڑتا گیا ۔ستمبر 2025 میں یہ دباؤ جب اپنی انتہا کو پہنچا، درجن کے قریب نعشیں اور سیکڑوں زخمیوں کو أٹھانے کے باوجود عوام پر امن رہے اور جب حکومت کے لیے اس آواز کو مزید نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا، تب 3 اور 4 اکتوبر 2025 کو پاکستان کے وفاقی وزراء مظفرآباد پہنچے۔ ان کے سامنے کوئی روایتی قیادت نہیں تھی بلکہ وہ لوگ بیٹھے تھے جو پورے ڈھائی برس عوامی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتے آئے تھے”عام آدمی” جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی۔ کئی گھنٹوں کے سخت مذاکرات ہوئے۔ اختلافات بھی پیدا ہوئے، بحث بھی ہوئی، مگر آخرکار عوامی دباؤ طاقت بنکر کامیاب ہوا ۔ایک تحریری معاہدہ وجود میں آیا۔ اس معاہدے میں عوام کے تمام بنیادی مطالبات تسلیم کیے گئے، اور مسائل کے حل کا وعدہ کیا گیا۔ یہ تحریک کے لیے ایک اہم سیاسی کامیابی تھی، مگر یہ آخری منزل نہیں تھی بلکہ ایک نئے مرحلے کی شروعات۔

معاہدے کے بعد لوگوں میں امید بھی ہے اور بےچینی بھی۔ کچھ نکات پر کام شروع ہوا، مگر مسائل مکمل حل نہیں ہوئے، یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام اب پہلے کی نسبت زیادہ باخبر، زیادہ منظم اور زیادہ پُراعتماد ہو چکے ہیں۔ حکمران کسی اور خیال میں نا رہیں۔

آج تحریک خاموش نہیں ہوئی، بلکہ سمجھ داری، تجربے اور اجتماعی شعور کے ساتھ مزید مضبوط ہوئی ہے۔ عوام نے جان لیا ہے کہ ان کی اصل طاقت ان کا اتحاد ہے۔ تھوراڑ سے اٹھنے والا نعرہ آج بھی جلسوں میں گونجتا ہے، گلیوں میں، دیہاتوں میں، دکانوں پر، سوشل میڈیا پر “آواز دو، ہم ایک ہیں۔” یہ نعرہ اب صرف احتجاج کا حصہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی سوچ کا عنوان بن چکا ہے۔ ڈڈیال کا نعرہ "بند مطلب بند” ایک ہی گھونج میں پورے خطے کو بند کر دیتا ہے اور اب تو مظفر آباد کے خون میں ڈڈیال ہجیرہ اور دھیرکوٹ کا خون بھی شامل ہو چکا ہے ۔

یہ جدوجہد ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ منزل ابھی دور ہے، مگر راستہ واضح ہے۔ اب یہ تحریک صرف معاشی مسائل کے خلاف نہیں رہی، یہ خودداری، اختیار اور انصاف کی تحریک بن چکی ہے۔ اس کی قیمت خون سے ادا ہوئی ہے اور اس کا سفر عوام کی بیداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والی تاریخ جب بھی اس دور کا ذکر کرے گی، تو یہ جدوجہد صرف ایک تحریک نہیں بلکہ ایک عوامی بیداری کے طور پر لکھی جائے گی اس عہد کے ساتھ کہ “آواز دو، ہم ایک ہیں” صرف نعرہ نہیں، ایک وعدہ ہے، نسلوں کا، حقوق کا، اور وقار کا۔ "بند مطلب بند” اعتماد اور بھروسہ ہے بھمبر سے تاؤبٹ تک!

Share this content: