مظفرآباد/کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی گیارہویں قانون ساز اسمبلی میں موجودہ دورِ حکومت کے دوران دوسری بار عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی گئی ہے۔
14 نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف عدم اعتماد کی چٹھی جمع کرواتے ہوئے نیا سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے۔
چوہدری انوار الحق 20 اپریل 2023 کو وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور وہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کا حصہ ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عدم اعتماد جمع کروانے والے پیپلز پارٹی کے وزراء گزشتہ دو سال سے انہی کی حکومت کا حصہ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے نئے وزیر اعظم کے طور پر فیصل ممتاز راٹھور کا نام تجویز کیا ہے، جو گزشتہ دو برس سے زائد عرصے تک انوار حکومت کے اتحادی رہے ہیں۔
اسمبلی میں وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر فیصل ممتاز راٹھور نئے وزیر اعظم ہونگے۔
فیصل ممتاز راٹھور ماضی میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی مفاہمتی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
عدم اعتماد کی چارج شیٹ میں پیپلز پارٹی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے “اپنے طرز حکمرانی، سیاسی بیانیے اور انتشاری طرز عمل کے باعث نہ صرف ایوان کا اعتماد کھویا، بلکہ ریاست کے آئینی، نظریاتی اور جمہوری ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا” ہے۔
سیاسی مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر حکومت کے دوران آئینی ڈھانچہ خراب ہوا تو کیا اس کا ذمہ دار صرف وزیراعظم ہے؟ کیا کابینہ اور اتحادی جماعتیں اس عمل میں شریک نہیں تھیں؟
اگر فیصل ممتاز راٹھور وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ تقریباً نو ماہ تک منصبِ وزارت عظمیٰ پر فائز رہیں گے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ ان کے والد، سابق وزیراعظم ممتاز راٹھور نے 1990 میں صرف نو ماہ بعد اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
کشمیر کی تاریخ میں عدم اعتماد کی تحریکیں کوئی نیا عمل نہیں، لیکن چوتھے وزیراعظم کے خلاف تحریک نے 2006 سے 2011 کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے جب چند برسوں میں متعدد وزرائے اعظم بدلے گئے تھے
اب عوام کے ذہنوں میں ایک بڑا سوال گونج رہا ہے:
کیا آنے والی نئی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے گی یا سیاسی بے یقینی کا سلسلہ برقرار رہے گا؟
Share this content:


