تبدیلی چاہتے تھے، تبدیلی حاضر ہے،چوہدری انوار الحق

مظفرآباد /کاشگل نیوز

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے تحریک عدم اعتماد سے قبل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے ساتھی ان سے مشورہ کر لیتے تو آج اس قدر طویل تقریر کی ضرورت پیش نہ آتی۔

انہوں نے اپنے خطاب میں سیاسی حالات، جمع شدہ اکثریت، نامزد قائدِ ایوان کے استعفے اور اسمبلی کے مستقبل سے متعلق اہم نکات پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔

چوہدری انوار الحق نے کہا کہ جو افراد یہ کہتے ہیں کہ "ایک اکیلا آدمی جمہوری و آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچا گیا ہے”، ان کی بات پر وہ کیا تبصرہ کریں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ آج نامزد قائدِ ایوان کا استعفیٰ دیکھ رہے تھے، جسے انہوں نے ایوان میں پڑھ کر سنایا۔

انہوں نے کہا کہ “اکثریت پوری ہو جائے تو جانے والے کو چلے جانا چاہیے۔ میں نے ہزار مرتبہ کہا کہ ستائیس ارکان جمع کریں اور میرا استعفیٰ لے لیں۔ جب یہ 27 بندے پورے ہو گئے تو میں منتظر رہا کہ دولہا کون ہے؟”

انہوں  نے واضح کیا کہ یہ ایوان انہیں عزیز ہے:
“یہ ایوان مجھے جنم دینے والا ایوان ہے، اس کا قتل میرے دماغ میں کیسے آسکتا ہے؟”

انہوں نے کہا کہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ جب کوئی دوست اکثریت لے لے تو اسے خجل و شرمندہ کرنا ہے؟
اپنی ہی جماعت کے چند ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان کا اس فیصلے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، جو وہ چھ ماہ پہلے خود کرنا چاہتے تھے۔

چوہدری انوار الحق نے کہا:
“مجھے آج بھی کسی سے کوئی گلہ نہیں۔ یہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے، تو لیجیے تبدیلی حاضر ہے۔”

اپنے منصب کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا کہ:
“اگر میں نے وزیراعظم رہنا ہوتا تو مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔”

انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ:
“جب تک میں وزیر اعظم ہوں، اسمبلی نہیں ٹوٹے گی۔ اور مہاجرین کی نشستیں میرے دستخط سے ختم نہیں ہوں گی۔”

چوہدری انوار الحق کے اس خطاب نے ایوان میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو نئی سمت دے دی ہے، جبکہ اکثریت کا مسئلہ اور نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کا عمل آئندہ سیاسی منظرنامے کا فیصلہ کرے گا۔

چوہدری انوار الحق نے مزید کہا کہ عدم اعتماد میں یہ دو جملے نہ لکھتے میں یہاں کبھی نہ آتا

میں اپنی پوری کابینہ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکار گزار ہوں جن کے قلم اور دستخطوں سے مجھے آزادی ملی۔

Share this content: