تحریرو تحقیق : خواجہ کبیر احمد
برطانوی ہوم سیکریٹری کی جانب سے اعلان کردہ نئی امیگریشن پالیسی نہ صرف سیاسی بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے بلکہ سماجی اور معاشی حلقوں میں بھی شدید بے چینی پھیلا چکی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نیٹ مائیگریشن کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہیں، مگر ان پالیسیوں کا زمینی اثر کئی ایسے شعبوں تک پھیل رہا ہے جن پر پورا ملک کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سوال یہ نہیں کہ پالیسی سخت ہے یا نرم، بلکہ یہ ہے کہ یہ سختی کس قیمت پر نافذ کی جا رہی ہے۔
پالیسی کا سب سے گہرا وار اگر کسی پر ہوا ہے تو وہ کیئر سیکٹر ہے۔ گزشتہ برسوں میں برطانیہ نے تسلیم کیا کہ اس کے کیئر ہومز اور گھریلو کیئر سروسز زیادہ تر بیرونی کارکنوں کے سہارے چل رہی ہیں۔ لیکن اب اسی شعبے کے کارکنوں کے لیے خاندان ساتھ لانے پر پابندی، اسپانسرشپ کے ضوابط سخت، اور تنخواہوں کی حد بڑھا دی گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ، جو بڑی امیدوں کے ساتھ برطانیہ آتے تھے، اب خود کو محدود، تنہا اور غیر یقینی ماحول میں پاتے ہیں۔ دوسری طرف کیئر فراہم کرنے والے اداروں کو پہلے سے موجود عملے کی قلت مزید شدید ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کا اثر براہِ راست بزرگوں، معذور افراد اور مریضوں کی روزمرہ دیکھ بھال پر پڑ رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ایک طرف اسٹاف کی کمی کے بحران کو تسلیم کرتی ہے، دوسری طرف بیرونی اسٹاف کو ہی محدود کر رہی ہے۔
اسی طرح NHS کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ صحت کا یہ نظام پہلے ہی دباؤ کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے۔ ملک کے اندر تربیت یافتہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد بڑھانے کا منصوبہ ایک طویل المدت نسخہ ہے، مگر فوری ضرورت وہ خلا ہے جو نرسوں، پیرامیڈکس اور ٹیکنیکل اسٹاف کی کمی نے پیدا کیا ہے۔ نئی امیگریشن شرائط ایسے لوگوں کی آمد کو مزید دشوار بنا رہی ہیں۔ نتیجہ؟ وہی پرانی کہانی ،انتظار کی طویل فہرستیں، تھکے ہوئے ڈاکٹر، برن آؤٹ شدہ نرسیں اور ایک ایسا صحت نظام جو پورے ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی تو ہے، مگر خود اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
کاروباری دنیا بھی اس نئے منظرنامے سے مطمئن نہیں دکھائی دیتی۔ سکلڈ ورکر ویزا کے لیے تنخواہ کی حد میں اچانک اور نمایاں اضافہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے بھاری ضرب ثابت ہوا ہے۔ مخصوص مہارتوں کی فہرست محدود ہونے سے کمپنیوں کو قابل امیدوار ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانیہ کی ٹیک انڈسٹری، زرعی شعبہ، تعمیرات اور لاجسٹکس ایسے شعبے ہیں جنہیں پہلے ہی افرادی قوت کی کمی ستا رہی تھی۔ اب انہیں خدشہ لاحق ہے کہ یہ پالیسیاں برطانیہ کو عالمی مسابقت میں پیچھے دھکیل دیں گی خصوصاً ایسے وقت میں جب کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک ٹیلنٹ کو خوش آمدید کہنے کے لیے نرم پالیسیوں کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی اس جھٹکے سے محفوظ نہیں رہا۔ بین الاقوامی طلبا برطانوی یونیورسٹیوں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن فیملی لانے پر پابندی اور گریجویٹ روٹ کی ممکنہ سختی نے اس شعبے میں بھی عدم یقین کو جنم دیا ہے۔ بہت سی یونیورسٹیاں پہلے ہی بجٹ خسارے کا شکار ہیں، ایسے میں غیر ملکی طلبا کی تعداد میں کمی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی قوم، جو علم، تحقیق اور ریسرچ میں دنیا کی رہنما رہی ہے، اپنے ہی تعلیمی اداروں کو مالی بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے؟
پالیسی کا ایک پہلو خاندانی امیگریشن بھی ہے، جس پر آمدنی کی شرط میں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ شرط براہِ راست ان خاندانوں کو متاثر کرتی ہے جو پہلے ہی کم آمدنی یا درمیانی سطح کی تنخواہوں پر گزارا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ شہری جو برسوں سے برطانیہ میں آباد ہیں، اب اپنے شریکِ حیات یا بچوں کو ملک میں نہیں لا پا رہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے “قانونی طور پر خاندانوں کی تقسیم” قرار دے رہی ہیں اور کچھ حد تک یہ تشویش بے بنیاد نہیں۔ ایک جمہوریت کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ خاندان کو محفوظ بنانے میں مدد کرے، نہ کہ قوانین کے ذریعے تقسیم پیدا کرے۔
ان سب کے بیچ ایک بڑا سوال گردش کر رہا ہے: کیا یہ پالیسیاں کامیاب ہوں گی؟ ممکن ہے نیٹ مائیگریشن کی تعداد کچھ کم ہو جائے، مگر اس کمی کے بدلے برطانیہ کو کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ کیئر کی قلت، NHS کا دباؤ، کاروباری دنیا کی بے چینی، یونیورسٹیوں کا مالی بحران، اور سماجی سطح پر عدم اعتماد ،یہ سب ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مستقبل غیر یقینی ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ یہ بہت ممکن ہے کہ دباؤ بڑھنے پر حکومت اپنی کچھ پالیسیوں میں نرمی کرے، یا انہیں شعبہ وار تبدیل کرے۔ کچھ ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں پالیسی کا رخ ایک متوازن نقطۂ نظر کی طرف مڑ سکتا ہے جہاں نہ دروازے پوری طرح بند ہوں اور نہ مکمل کھلے۔ مگر فی الحال، زمینی حقیقت یہی ہے کہ نئی امیگریشن پالیسی نے ایک بحث چھیڑ دی ہے: ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ سیاسی مقبولیت، یا معاشرتی اور معاشی حقیقت؟
یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب برطانیہ کو جلد یا بدیر دینا ہو گا، ورنہ یہ سختیاں محض نمبر کم کرنے کا ذریعہ تو بن جائیں گی، مگر ان کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
اسائلم پالیسی ! سختی کی لہر یا انسانی جبر
برطانیہ کی سامنے آنیوالی نئی اسائلم پالیسی نہ صرف سیاسی اور انتظامی سطح پر ہلچل پیدا کر رہی ہے بلکہ انسانی حقوق، سماجی استحکام اور ہزاروں پناہ گزینوں کے مستقبل کے حوالے سے گہری تشویش کا باعث بھی بنی ہوئی ہے۔ حکومت نے اپنی سرکاری پالیسی دستاویز کے تحت اعلان کیا ہے کہ اب پناہ گزینوں کو ملنے والا تحفظ پہلے کی طرح خودکار پانچ سالہ مدت نہیں ہوگا، بلکہ انہیں ابتدائی طور پر صرف تیس ماہ یعنی ڈھائی سال کا پروٹیکشن ملے گا، جس کے بعد دوبارہ جائزہ لیا جائے گا کہ کیا انہیں یہ اجازت جاری رکھی جائے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ جنہیں سابقہ قوانین کے تحت نسبتاً جلد مستقل رہائش مل سکتی تھی، اب انہیں اس حق کے لیے بیس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ یہ تبدیلیاں ان پناہ گزینوں کے لیے جن کے کیسز پہلے ہی ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے سے زیرِ التوا ہیں، مزید غیر یقینی، ذہنی دباؤ اور پیچیدگی کا باعث بن رہی ہیں۔
نئی پالیسی میں سب سے نمایاں پہلو خاندانی ملاپ کے حق میں سختی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب پناہ گزین اپنے خاندان کو خودکار طور پر برطانیہ نہیں بلا سکیں گے، اور وہ حق جو کئی دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تسلیم شدہ تھا، اب سخت شرائط اور حکومتی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پبلک فنڈز یعنی سرکاری امداد اور رہائش کی سہولت کو بھی لازمی ذمہ داری کے بجائے اختیاری بنایا جا رہا ہے، جس سے حکومت پر قانونی پابندی نہیں رہے گی کہ وہ ہر پناہ گزین کو مدد فراہم کرے۔ اس سے غربت، بے گھری اور سماجی تنہائی کے خدشات نمایاں طور پر بڑھ سکتے ہیں، خصوصاً ایسے افراد کے لیے جن کے پاس نہ روزگار ہے اور نہ ہی مقامی کمیونٹی میں کوئی مضبوط سہارا۔
حکومت ان اقدامات کو اسائلم سسٹم میں اصلاحات اور غیر قانونی راستوں سے آنے والوں کو روکنے کا اقدام قرار دے رہی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ نظام پناہ گزینوں کو ایسی مراعات دے رہا تھا جو غیر ارادی طور پر “پُل فیکٹر” بن کر لوگوں کو خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔ حکومت کے مطابق اب جو لوگ “قانونی راستہ” اختیار کریں گے اور برطانیہ میں مثبت کردار ادا کریں گے، انہیں مستقبل میں مستقل رہائش کی جانب ایک شفاف راستہ ملے گا، جس میں تعلیم، ملازمت اور سماجی کردار کا جائزہ شامل ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب بنیادی ڈھانچہ ہی عدم استحکام، کڑی شرائط اور طویل انتظار پر مبنی ہو، تو انسانی پہلو کہاں باقی رہ جاتا ہے؟
ان اصلاحات کے انسانی اثرات زیادہ سنگین ہیں۔ کئی پناہ گزین پہلے ہی دس دس سال سے اپنے کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ ان کے لیے یہ نئی پالیسی ایک نیا دورِ بے یقینی لے کر آئی ہے، جہاں رہائش، تعلیم، ملازمت اور خاندان ہر چیز مشروط، عارضی اور منسوخ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ مستقل رہائش کا ہدف جو کبھی پانچ برس کے بعد حاصل ہو جاتا تھا، اب ایک ایسا سفر بن چکا ہے جس کی منزل بیس سال دور کر دی گئی ہے۔ خاندانوں کے درمیان دوریاں اب مزید طویل اور تکلیف دہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ خاندانی ملاپ کی سہولت سخت ترین شرائط سے مشروط کر دی گئی ہے۔
پبلک فنڈز سے محرومی خصوصاً ان افراد کے لیے بڑا چیلنج ہے جو ذہنی یا جسمانی مشکلات کا شکار ہیں یا جن کی روزگار تک رسائی محدود ہے۔ اس پالیسی کے بعد ایسے افراد کو یا تو بے گھر ہونے کا خطرہ ہے یا غیر انسانی حالات میں زندہ رہنے کی جدوجہد کرنا ہوگی، اور حکومت اس کی ذمہ داری سے قانونی طور پر بری ہو جائے گی۔ یہی نہیں، اس اقدام سے برطانیہ کی عالمی سطح پر “انسانی حقوق کے علمبردار ملک” کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
پالیسی کے سیاسی مضمرات بھی کم اہم نہیں ہیں۔ حکومت اسے ملکی سرحدوں کے تحفظ اور امیگریشن کے دباؤ میں کمی کا ذریعہ سمجھ رہی ہے، مگر مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں، وکلاء اور سماجی ادارے اسے نہ صرف عدالتی سطح پر چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں بلکہ اسے انسانی حقوق سے انحراف قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک ملک پناہ کی تلاش کے بنیادی حق کو اتنا غیر یقینی بنا دے کہ لوگ خوف، بے بسی اور مسلسل معلق زندگی گزاریں، تو یہ صرف قانون کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
مختصرأ یہ کہ نئی اسائلم پالیسی نظام میں اصلاحات کے دعوے کے باوجود ایک ایسا ماحول پیدا کر رہی ہے جس میں پناہ گزینوں کی زندگی کا ہر پہلو مشروط، ناپائیدار اور مستقل خطرے کے سائے میں ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انتظامی بہتری کو انسانی ہمدردی سے جدا نہ کرے۔ اگر مقصد واقعی ایک منظم، شفاف اور مؤثر اسائلم نظام بنانا ہے تو اس میں انسانیت، ہمدردی اور بنیادی حقوق کے اصولوں کو مرکزی حیثیت دینا ناگزیر ہے۔ ورنہ یہ پالیسی محض کاغذوں پر اصلاحات کا دعویٰ اور زمینی سطح پر پناہ گزینوں کے لیے ایک نئے دور کی محرومی ثابت ہوگی۔
بین الاقوامی طلباء پر اس کے متوقع اثرات
برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی بین الاقوامی طلبہ (خاص طور پر پاکستان، انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والے طلبہ) پر بڑے اور متنوع اثرات مرتب کرے گی۔ برطانیہ نے مئی 2025 میں امیگریشن سفید کاغذ (وائٹ پیپر) جاری کیا، اور اس میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے کچھ سنگین تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں۔ حکومتی موقف ہے کہ یہ قدم نیٹ مائیگریشن کو کنٹرول کرنے اور غیر ملکی طلبہ کی تعداد کو کنٹرول شدہ اور معیاری سطح پر رکھنے کی کوشش ہے، مگر اس کے اثرات نہ صرف یونیورسٹیوں کی مالی حالت پر ہوں گے بلکہ بہت سے طالب علموں کی زندگی، منصوبہ بندی اور مستقبل پر بھی گہرے معنوں میں پڑ سکتے ہیں۔
سب سے نمایاں تبدیلی “گریجویٹ روٹ” میں ہےیکم جنوری 2027 کے بعد ڈگری مکمل کرنے کے بعد کام کی اجازت کے ویزے کی مدت دو سال (24 ماہ) سے کم کرکے 18 ماہ کر دی جائے گی، ان طالب علموں کے لیے جو انڈرگریجویٹ یا ماسٹر ڈگری مکمل کرتے ہیں۔
یہ تبدیلی خاص طور پر ایشیائی طلبہ کے لیے فکر کی بات ہے، کیونکہ وہ اکثر اپنی ڈگری کے بعد برطانیہ میں کام تلاش کرنے اور مستقل ورک ویزا پر منتقلی کی امید رکھتے ہیں۔ مگر 18 ماہ کی مدت کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں محدود وقت میں مؤثر ملازمت تلاش کرنی پڑے گی اور اگر ان کی ڈگری یا ملازمت ویزا کے معیار پر پورا نہ اترے، تو انھیں واپس جانا پڑ سکتا ہے۔
مزید یہ کہ، یونیورسٹیاں جن کا انحصار بین الاقوامی طلبہ کی فیس پر ہے، نئے مالی دباؤ کا سامنا کریں گی۔ حکومت نے بین الاقوامی طلبہ کی فیس پر 6٪ لیوی /ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جو یونیورسٹیوں کی آمدنی کو متاثر کرے گی اور ممکن ہے وہ اس بوجھ کا کچھ حصہ طلبہ پر منتقل کریں۔
مالی تقاضے سخت کیے گئے ہیں۔ گیارہ نومبر 2025 سے نئے اسٹوڈنٹ ویزا درخواست دہندگان کو زیادہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں ثابت کرنا ہوگی لندن کے لیے ماہانہ اخراجات میں باقی شہروں کی نسبت اضافی تقریبأ تین سو پاؤنڈ اکاؤنٹ میں رکھنا درکار ہونگے۔
اس سے خاص طور پر وہ طلبہ متاثر ہونگے جو ایشیائی ممالک سے آتے ہیں جہاں کرنسی کی قدر اور خاندان کی مالی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔ ایک اضافی مالی بوجھ، ویزا درخواست کے مراحل کو اور پیچیدہ بنا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر کچھ طالب علموں کو برطانیہ میں پڑھنے کے فیصلے کو دوبارہ پرکھنے پر مجبور کرے گا۔
خاندان ( بیوی بچے) لانے کے قوانین میں بھی سختی کی گئی ہے۔ اب مروجہ اصولوں کے تحت صرف پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس یا تحقیقاتی کورس کرنے والے طلبہ کو ہی اپنے شریکِ حیات یا بچوں کو ساتھ لانے کی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے ماسٹرز اور انڈرگریجویٹ طلبہ خاص طور پر وہ جو خاندان کے ساتھ منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں،مستقبل میں اس سہولت سے محروم رہ سکتے ہیں۔ ایسے طلبہ کو نہ صرف مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ جذباتی اور سماجی تنہائی کا احساس بھی بڑھ سکتا ہے۔
ساتھ ہی امیگریشن حکام یونیورسٹیوں پر سخت نگرانی بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نئے قواعد کے تحت یونیورسٹیز کو اپنا لائسنس برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سخت میٹرکس پورے کرنے ہوں گے داخلہ کی شرح، کورس مکمل کرنے کی شرح، اور ویزا رد کی شرح جیسے اعداد و شمار پر نئی کم از کم حدود لاگو ہوں گی۔ ان میں ناکامی کی صورت میں یونیورسٹیوں کو تنبیہ یا پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ وہ نئے بین الاقوامی طلبہ کی بھرتی کم کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلبہ کو اتنی خوش آمدید نہ کہیں جتنی اب تک کہا کرتی رہیں، اور ان ممالک (جیسے پاکستان ،بنگلہ دیش اور انڈیا) سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی آئے۔
ایک اور اہم پہلو انگریزی زبان کی ضرورت ہے، نئے قواعد میں انگلش کا معیار بڑھایا گیا ہے، اور انگریزی زبان کا اعلیٰ سطح کا امتحان (مثلاً B2 CEFR) کچھ صورتوں میں لازمی ہو سکتا ہے۔ اس تبدیلی سے وہ طلبہ متاثر ہوں گے جن کا بنیادی تعلیمی پس منظر انگریزی میں کمزور ہو، یا وہ ایسے ممالک سے آتے ہوں جہاں انگریزی کی سطح مختلف ہو۔
ان تمام تبدیلیوں کا مجموعی اثر یہ ہو سکتا ہے کہ برطانیہ کی کشش ایک بین الاقوامی تعلیمی مرکز کے طور پر کمزور ہو جائے۔ پاکستان، انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والے طلبہ، جو ابھی بھی برطانیہ کو ایک پرکشش منزل سمجھتے ہیں، ممکن ہے اب دوبارہ سوچیں، کیا وہ محدود وقت، زیادہ مالی بوجھ، اور خاندانی علیحدگی کے خطرے کے ساتھ یہاں آنا چاہیں گے؟ بعض طالب علم پہلے ہی متبادل مقامات جیسے کینیڈا، آسٹریلیا یا یورپ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے جہاں پوسٹ اسٹڈی ورک کے مواقع زیادہ لچکدار اور مستقل بنیاد پر دستیاب ہیں۔
دوسری جانب، کچھ تنظیمیں اور طالب علموں کے نمائندے خوش ہیں کہ گریجویٹ روٹ ختم نہیں ہوا یعنی طلبہ کو پھر بھی برطانیہ میں کام کرنے کا موقع ملے گا، اگرچہ محدود وقت کے ساتھ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ محدود موقع ان مقاصد کو پورا کرے گا جن کے لیے اکثریتی طلبہ نے یہاں آنا منتخب کیا تھا، جیسے کہ طویل مدتی مسکن، مستقل رہائش یا کیریئر کی ترقی۔
اب شائد یہ کہنا درست ہوگا کہ برطانیہ کی یہ نئی امیگریشن پالیسی بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے مگر یہ دور وہ نہیں ہے جس کی خواب بینی اور کشش پچھلے برسوں میں رہی ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت قانونی اور اقتصادی کنٹرول کو ترجیح دے رہی ہے، وہیں دوسری طرف طلبہ کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے محدود موقع، مالی دباؤ، اور ایک غیر یقینی مستقبل۔ اگر برطانیہ واقعی ایک عالمی تعلیمی قائد رہنا چاہتا ہے، تو اسے اپنی پالیسی سازیاں صرف عدد و شمار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ انسانیت، بین الاقوامی تعاون اور طویل مدتی مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہی استوار کرنی ہوں گی۔
٭٭٭
Share this content:

