اصلاح پسندی بظاہر معاشرے میں بہتری اور تبدیلی کا راستہ دکھاتی ہے، مگر سوشلسٹ نظریات کے مطابق یہ دراصل ایک ایسا رجحان ہے جو انقلاب، طبقاتی جدوجہد اور بنیادی سماجی ڈھانچے کی تبدیلی کو روکنے کے لیے ابھرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب اپنے خلاف عوامی مزاحمت دیکھتا ہے تو اپنی بقا کے لیے معمولی اصلاحات پیش کرتا ہے۔ یہ اصلاحات وقتی ریلیف تو دیتی ہیں، مگر استحصالی ڈھانچے کو چھیڑے بغیر اسے مزید مستحکم کر دیتی ہیں۔
سوشلسٹ فکر میں انقلاب محض حکومتی تبدیلی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی طاقت کے مرکز کی منتقلی کا عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں اصلاح پسندی اس پورے انقلابی عمل کی روح کو کمزور کرتی ہے۔ اصلاح پسند سوچ عوام کو یہ یقین دلاتی ہے کہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بتدریج بہتری ممکن ہے، جبکہ سوشلسٹ نظریات کے مطابق سرمایہ دارانہ ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ بغیر بنیادی تغیر کے مساوات اور انصاف حاصل نہیں ہوسکتا۔ یوں اصلاح پسندی عوامی غصے کو جذب کرکے انقلاب کی شدت کو کم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
پوری دنیا کی تاریخ میں یہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی مزدور تحریکیں طاقت پکڑتی ہیں تو حکمران طبقات فوری طور پر چند سہولیات، مزدور قوانین یا معاشی پروگرام متعارف کراتے ہیں۔ ان کا مقصد طبقاتی جدوجہد کو منظم انقلاب کی جانب بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے۔ لینن، روزا لکسمبرگ اور دیگر انقلابی مفکرین نے بارہا کہا کہ اصلاحات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا، مگر انہیں انقلاب کی طرف بڑھنے کے لیے ایک حربہ بنایا جائے، نہ کہ متبادل راستہ سمجھا جائے۔ اگر اصلاحات کو آخری مقصد بنا لیا جائے تو انقلابی تحریکیں بکھرنے لگتی ہیں اور مزدور طبقہ سیاسی طور پر غیر فعال ہوجاتا ہے۔
اصلاح پسندی ردِ انقلابی عمل اس لیے بھی ہے کہ یہ عوام کو اس خام خیالی میں مبتلا رکھتی ہے کہ ریاست غیر جانب دار ہے اور اس کے اندر رہ کر سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ سوشلسٹ نظریات کے مطابق ریاست سرمایہ دار طبقے کا آلہ ہے جو اس کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے۔ لہٰذا جب اصلاح پسند قوتیں ریاست سے توقع رکھتی ہیں کہ وہ خود اپنے طبقاتی ڈھانچے کو کمزور کرے گی، تو یہ نظریاتی فریب ہی ہوتا ہے۔ اس فریب کے نتیجے میں عوام کی توجہ اصل سوال یعنی ملکیت، طاقت اور پیداوار کے ذرائع کی اجتماعی تنظیم سے ہٹ جاتی ہے۔
اصلاح پسندی ہمیشہ جذباتی اور نظریاتی طور پر کمزور طبقات کو اپنی طرف کھینچتی ہے، کیونکہ یہ نسبتاً آسان راستہ دکھاتی ہے۔ انقلاب جدوجہد، قربانی اور شعوری تنظیم چاہتا ہے، جبکہ اصلاحات تیز نتائج کا تاثر دیتی ہیں۔ لیکن اس آسانی کی قیمت یہ ہوتی ہے کہ استحصالی نظام پہلے سے زیادہ مضبوط اور دیرپا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں اصلاح پسند جماعتیں اکثر طاقتور بن کر ابھرتی ہیں، مگر وہ کبھی بھی طبقاتی ڈھانچے کو متاثر نہیں کرتیں۔
سوشلسٹ اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اصلاحات کو رد نہیں کیا جائے، مگر ان پر انحصار بھی نہ کیا جائے۔ کوئی بھی وقتی سہولت مزدور طبقے کی بہتری کے لیے مفید ہوسکتی ہے، مگر ان کا مقصد عوام کو منظم کر کے شعور کی سطح بلند کرنا ہے، نہ کہ انقلاب کے تصور کو بیکار ثابت کرنا۔ جب اصلاحات کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بس یہی کافی ہے، تو دراصل انقلابی عمل کو روکا جاتا ہے، جسے مارکسزم کے مطابق ردِ انقلابی کردار کہا جاتا ہے۔
یوں اصلاح پسندی بظاہر نرم اور مثبت راستہ لگتی ہے، مگر حقیقت میں سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ سوشلسٹ نظریات کے مطابق معاشرے میں حقیقی اور پائیدار تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب طبقاتی اقتدار کو چیلنج کیا جائے، دولت کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کو بنیادی طور پر بدلا جائے اور عوام کو شعوری طور پر منظم کیا جائے۔ اس کے بغیر اصلاحات کا سلسلہ صرف اس حقیقت کو چھپاتا ہے کہ نظام کبھی بھی خود اپنے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح پسندی کو ردِ انقلابی عمل سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ عوامی تحریک کو اس کے اصل مقصد یعنی مکمل سماجی انقلاب تک پہنچنے سے روکے رکھتی ہے۔
٭٭٭
Share this content:


