گلگت بلتستان میں محکمہ برقیات کی نجکاری، ابتداء ہنزہ سے

احسان علی ایڈووکیٹ
چیئرمین عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان

آخرکار جی بی کالونیل اسمبلی کی پیداوار گلبر سرکار جاتے جاتے ایک اور چھری مسائل زدہ عوام کی گردن پہ چلا کر چلی گئی۔ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے تحلیل ہونے والی جی بی اسمبلی اور نااہل ترین اور کرپٹ ترین حکمرانوں کو اپنے خلاف عوام میں پائی جانے والی غم و غصہ اور نفرت کا اندازہ تھا اس لئے انہوں نے حکومت چھوڑنے سے ایک دن قبل چوری چھپے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر ہنزہ جسے حکمران طبقہ ہمیشہ مختلف تجربات کے لئے ایک سافٹ ٹارگٹ کے طور پہ استعمال کرتے ہیں اس لئے حکومت نے سب سے پہلے ہنزہ کے مسائل زدہ عوام پہ نج کاری کی چھری چلا دی ھے۔

حکمرانوں نے بڑی چالاکی سے ہنزہ میں محکمہ برقیات کی نج کاری کے لئے بظاہر اسماعیلی پس منظر رکھنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی آئی پی ایس کی ایک ذیلی کمپنی این پاک کو چنا ھے اس وجہ سے ہنزہ کے باشندوں کی طرف سے عقیدتا” بجلی کی نج کاری کے اس عوام دشمن معاہدے کے خلاف کوئی شدید رد عمل سامنے نہیں آیا۔

مگر حکومت نے ابھی تک این پاک نامی کمپنی کے ساتھ ہنزہ میں عوامی بجٹ سے تعمیر شدہ اربوں بلکہ کھربوں مالیت کی مشینری،تعمیرات اور اراضی کو کس قیمت پہ حوالہ کیا ھے اور اس کے بدلے عوام کے لئے بجلی کی فی یونٹ قیمت کتنی مقرر کروائی ھے آیا اخباری اطلاعات کے مطابق نو روپے فی یونٹ ریٹ حتمی ھے ۔آیا اس معاہدے میں کوئی ایسا شق بھی شامل ھے کہ یہ نجی کمپنی آئندہ تیس سالہ لیز ایگریمنٹ کی مدت کے دوران اپنی مرضی سے فی یونٹ ریٹ نہیں بڑھائی گی ،اس بابت معاہدہ پبلک ہونے پہ ہی پتہ چلے گا ۔

پاکستان میں پرائیویٹ بجلی بنانے والی کمپنیز جنہیں آئی پی پیز کہا جاتا ھے کے تلخ تجربے سے غالب امکان یہی نظر آتا ھے کہ یہ کمپنی ہنزہ کے عوام کو سستے داموں بجلی کی خیرات یا تبرک بانٹنے نہیں آئی ھے اور نہ ہی سرمایے کا کوئی مذہب یوتا ھے یہ کمپنی بھی دیگر نجی کمپنیوں کی طرح مہنگے داموں بجلی دے کر اس منافع بخش کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانےآئی ھے پاکستان میں آئی پی پیز ساٹھ تا ستر روپے فی یونٹ بجلی کا ریٹ مقرر کرکے محنت کش عوام کاخون نچوڑ کر سالانہ کھربوں کا منافع کم رہی ہیں این پاک کمپنی بھی ہنزہ میں یہی کچھ کرنے آئی ھے زیادہ امکان یہی ھے کہ یہ کمپنی وقت کے ساتھ ساتھ مختلف حیلے بہانوں سے فی یونٹ بجلی کی ریٹ بڑھاتی جائے گی اور جی بی کالونیل اسمبلی ممبران اور حکومتیں عوامی حقوق کی تحفظ کرنے کی بجائے پرائویٹ کمپنی کے مالی مفادات کا ہی تحفظ کرے گی۔

اس کا ثبوت اس اسمبلی کی طرف سے لینڈ ریفامز ایکٹ، مائننگ رولز، لوکل باڈیز ایکٹ، فنانس ایکٹ،پاور پرائویٹائزیشن ایکٹ، لوکل باڈیز ایکٹ۔ اسمبلی ممبران و وزراءبو وزیر اعلی و گورنر و اعلی بیورو کریسی کی تنخواہوں و مراعات میں چار سو سے پانچ سو فیصد اضافہ کے عوام دشمن قوانین سے ملتا ھے ۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ھے کہ اس کمپنی کے ساتھ نو روپے فی یونٹ ریٹ کس فارمولے کے تحت مقرر کی گئی ھے جبکہ یہاں کی اٹھانوے فیصد عوام تین روپے سے زیادہ ریٹ ادا کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں نو روپے فی یونٹ کے حساب سے ایک6 گھرانے کا اوسط استعمال چار سو سے پانچ سو یونٹ کا بل کم چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے ماہانہ بنتے ہیں جو کہ ایک محنت کش طبقے یا نچلے درمیانہ طبقے کے گھرانوں کے لئے اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں بجلی کا یہ بھاری بل ادا کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو گا ۔ جی بی عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہے۔

حکمران طبقہ نے پہلے ہی فیصلہ کیا ہوا ھے کہ ہنزہ کے بعد اگلے فیز میں بہت جلد دیگر نو اضلاع میں بھی بجلی کے محکمے کو پرائیویٹائز کرے گی۔اس بابت اس سال جولائی میں ہی محکمہ برقیات کو نجی ہاتھوں کے حوالہ کرنے کا ایکٹ پاس کیا ھے۔

اب یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ھے کہ حکمران طبقہ پچھلے کئی دہائیوں سے جان بوجھ کر جی بی میں بجلی کا کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں لگا رہی تھی حالانکہ پن بجلی کے ملکی اور عالمی ماہرین کے سروے کے مطابق جی بی کے دریاؤں سے کم از کم پچاس ہزار سے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استطاعت ھے جبکہ پورے پاکستان میں بجلی کا زیادہ سے زیادہ کھپت بیس سے پچیس ہزار میگا واٹ ھے اس طرح باقی ستر اسی ہزار میگا واٹ بجلی کو ہمسایہ ممالک کو فروخت کرنے سے سعودی عرب کی تیل سے زیادہ ذر مبادلہ حاصل کیا جا سکتا تھا اس سستی پن بجلی سے ملک بھر میں بڑی تعداد میں کارخانے لگ جاتے اور جیب بی سمیت پورے ملک سے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو جاتا۔

مگر پاکستان کے حکمرانوں کے پاس اس طرح کا مفاد عامہ والا کوئی پلاننگ نہ پہلے نہیں اس ملک کے حکمران دراصل سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ ہیں اور انہوں نے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور سامراجی طاقتوں سے قرضے لیے ہیں اور ان قرضوں کے شرائط میں سب سے شرمناک شرط یہ ہے کہ ملک میں بنیادی ضروریات زندگی سے متعلق تمام شعبے بجلی۔ صحت، تعلیم،پانی اور ٹرانسپورٹ کو پرائویٹائز کرنا ھے اور پاکستان کی ہر آنے والی حکومت ان شرمناک سامراجی شرائط کے پابند ہیں۔ سرمایہ کے اس غلبے کو شکست دیکر محنت کی حکمرانی قائم کرنے کے علاوہ جبر و استحصال اور لوٹ مار کی اس انسان دشمن نظام سے نجات ممکن نہیں۔

٭٭٭

Share this content: