گلگت بلتستان پر نوآبادیاتی قبضہ ،ہنزہ بجلی میں بہتری کے نام پر وسائل کی نجکاری

تحریر: صفی اللہ بیگ

گلگت بلتستان پر مسلط نوآبادیاتی نظام کے تحت قایم غیرآ ئینی اسمبلی، حکومت اور افسرشاہی نے ایک اور غیرقانونی اقدام کے ذریعے ضلع ہنزہ میں موجود بجلی کے اربوں مالیت کے سرکاری اثاثے اور ہنزہ کے قدرتی وسائل اورپانی کے ذخائر عوام سے مشاورت کے بغیر 30 سالوں کے لیے مفت میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی IPS کی سبسڈری کمپنی NPAK کو منتقل کیا۔

اگرچہ اس ملٹی نیشنل کمپنی (جس کے 49 فیصدی ملکیت جرمن اور دیگر مغربی ممالک کی بڑی کمپنیاں ہیں) کے ساتھ 2020 میں اس وقت کے نگران حکومت نے ایک غیرقانونی خفیہ معاہدہ ( Concession Agreement ) پر دستخط کیا تھا۔ جس کے تحت اس وقت کی حکومت نے افسرشاہی اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے تمام تر بجلی کے اثاثے، پانی کے وسائل اور ذخائر اس کمپنی کو بغیر کسی معاوضے کے منتقل کرنے تھے مگر بھلا ہو جرمن کمپنی KfW کا جس نے سرکاری اثاثوں کا ایک پرائیویٹ کاروباری کمپنی کو منتقلی پر اعتراض کیا اور یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہوگیا۔

پھر اس خفیہ معاہدے کے ذریعے احمدآباد ہنزہ میں اس کمپنی کو NOC دیا گیا اور کمپنی نے احمدآباد میں بجلی کے پروجیکٹ کے لیے مالکان کی رضامندی کے بغیر زمین خریدنے کے لیے سماجی مذہبی دبائو اور قانونی چارہ جوئی کی حکمت عملی اختیار کیا ۔ مگر زمین مالکان میں سے کم از کم 20 فیصدی نے زمینوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کیا جس کے نتیجے میں خفیہ معاہدہ مزید تعطل کا شکار رہا۔

گلگت بلتستان خصوصا ہنزہ کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو GB کی کٹھ پتلی حکومت اور نوآبادیاتی افسرشاہی کا ہنزہ کے فطری وسایل اور سرکاری اثاثوں پر ڈکیتی اور بجلی کی 30 سال کے نام پر ہمیشہ کے لیے نجکاری کو پاکستان میں تیزی سے بدلتے حالات، پاکستان میں IPPs کا بجلی کی پیداوار اور بجلی کی فراہمی پر اجارہ داری، پاکستان میں آمریت کا قیام، مغربی سامراجی ممالک اور سرمایہ کا اس خطے کے معدنی اور فطری وسایل میں غیرمعمولی دلچسپی کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

اس وقت ہنزہ میں پن بجلی کا کل پیداوار تقریباً 7 یا 8 میگاواٹ کے قریب ہوگا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سے تقریباً 95 فیصدی بجلی سرکار کے تحت پیدا کی جاتی ہے۔ 550 kW احمدآباد کی نجی کمپنی پیدا کرتی ہے۔ IPS یا اس کا ذیلی کمپنی NPAK ہنزہ میں پن بجلی پیدا ہی نہیں کرتی ہے۔ نہ ہی NPAK نے کوی پن بجلی گھراب تک لگایا اس کے دو سولر پروجیکٹس بھی مقامی سہولت کاروں کی مدد سےعوامی ملکیتی زمین پر قبضہ کرکے لگاے گئے ہیں جن میں SIFC بھی پارٹنر ہے۔

ان حالات میں IPS کو ہنزہ میں مایون، حسن آباد، خیبر اور مسگر کے تمام سرکاری بجلی گھر، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام مفت میں 30 سالوں کے لیے دینا صرف خوفناک نہیں ہے بلکہ یہ کمپنی اگلے 30 سالوں میں بجلی میں بہتری کے نام پر پورا ہنزہ میں بجلی پیدا کرنے کے تمام آبی وسائل ، ذخایر اور شمسی و ہوا کے وسائل پر اپنی ملکیت قایم کرے گی۔ اور بجلی جیسی بنیادی سہولت کا منافع بخش کاروبار کرے گی۔ یوں ہنزہ کے عوام اور آنے والی نسلیں ہنزہ کے فطری وسائل سے نہ مکمل طور پر محروم ہونگے۔ بلکہ آنے والے تمام نسلیں اس کمپنی کے جبری گاہک بن کر جینے پر مجبور ہونگے۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام سے ہنزہ میں بجلی بہتر ہوگی ۔ یقینا نہیں ۔ ہنزہ میں بجلی کی موجودہ طلب 20 میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ جب کہ IPS کے پاس ہنزہ میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے کوی بڑا ٹھوس منصوبہ، سائٹ یا زمین اس وقت موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہنزہ کے عوام کو اگلے 10 سال تک بجلی کے شدید بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔ البتہ فوری طور پر IPS اپنی ساکھ اور مستقبل کے مفادات کو بچانے کے لیے کچھ بہتری کے ذریعے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرینگے اور عوام کو اگلے دہائیوں تک خواب ہی دکھاتے رہے گی۔

گلگت بلتستان اور ہنزہ کے تمام ترقی پسندوں، قوم پرستوں اور نوجوانوں کو اس وقت خطے کے وسائل پر قبضے کے منصوبوں کو روکنے کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔ کیونکہ اس کو صرف ہنزہ کا مسئلہ قرار دے کر خاموشی اختیار کرنے سے باقی اضلاع کے عوام کے مفادات محفوظ نہیں ہوسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی غیرآئینی اسمبلی کا لینڈ ریفارمز ایکٹ کا پاس کرنا، موجودہ حکومت کا سیاحت کے اثاثوں کو گرین ٹوریزم کو منتقل کرنا، بجلی کی نجکاری کے نام پر فطری وسائل کو ملٹی نیشنل کمپنی کے حوالے کرنا اور آنے والی سہولت کار اسمبلی کا معدنیات کا بل پاس کرنے کی کوششوں کو اگر نہیں روکا گیا۔ تو آنے والی نسلیں مکمل غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہونگے۔ اس لیے اس وقت آنے والے اسمبلی کے انتخابات کے ڈھونگ کا شکار ہونے کے بجاے فطری وسائل اور خطے پر قبضے کو روکنے کے لیے عوام کو متحد کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔

Share this content: