مُدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا
تعلیم محض چند اسباق کا نام نہیں، نہ ہی یہ ڈگریوں کے انبار میں دفن کوئی مادی حقیقت ہے۔ علم تو اس روشن شعلے کا نام ہے جو تحقیق، جستجو اور آزادانہ تفکر سے پروان چڑھتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی محض لکھنے پڑھنے کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں، لیکن اس بنیاد پر شعور کی عمارت تب ہی کھڑی ہوتی ہے جب انسان گرد و پیش کے واقعات کا تجزیہ کرے، مختلف نظریات کا تقابلی مطالعہ کرے اور اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پہچان کر کردار ادا کرنے کا سلیقہ پیدا کرے۔
اگر تعلیم ذہنوں کے قفل نہ کھولے، اگر فکر میں آزادی اور سوال کرنے کی جرات پیدا نہ کرے، تو سارا تعلیمی سفر ریاکاری اور ظاہری نمود و نمائش کی ایک مردہ رسم بن جاتا ہے۔
ہمارے سماج میں تعلیم کو ایک منافع بخش پیشہ بنا کر انسانوں کا بے رحمانہ استحصال کیا جا رہا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو پوزیشن اور نمبروں کی اندھی دوڑ میں دھکیل دیا گیا ہے، اور نتیجہ یہ کہ سوچنے کی قوت مرجھا رہی ہے، تخلیق کا سرچشمہ سوکھ رہا ہے۔ رٹہ سسٹم نے ذہنی جمود کو جنم دیا ہے یہاں پوزیشن ہولڈر تو بے شمار ہیں مگر عملی زندگی میں ہاتھ پاؤں چلانے کی صلاحیت سے محروم۔
المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کی ذمہ داری نااہل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔ ایف ایس سی پاس اساتذہ میٹرک کے بچوں کی قسمت سنوارنے بیٹھ جاتے ہیں، اور یوں نسلیں سطحیت کے سپرد کر دی جاتی ہیں۔ جب تک تعلیم کو صرف استاد کی ذات اور ادارے کی فیس تک محدود رکھنے کا تصور ختم نہیں ہوتا، تعلیمی زوال تھمنے والا نہیں۔
اصل تربیت تو ماحول سے ہوتی ہے گھر کی فضا سے، سماج کی روایات سے، اور معاشرتی رویوں سے۔ جس ماحول میں خوف، جبر اور سزا کا سایہ ہو، وہاں سے نہ تو اعتماد جنم لیتا ہے، نہ ہی سامع و متکلم کی وہ نسل پیدا ہوتی ہے جو انقلاب کا مقدمہ لڑ سکے۔
رسمی تعلیم کا یہی المیہ ہے کہ یہ شاہ دولے کے وہ چوہے پیدا کرتی ہے جن کے دماغ سکڑ جاتے ہیں، دل تنگ ہو جاتے ہیں اور نتائج انتہاپسندی کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ پھر جب تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول رہ جائے اور ریاست نوکری دینے میں ناکام ہو جائے تو یہی مایوس نوجوان طاقت اور تشدد کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ یہ حادثہ نہیں ، یہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کا منطقی نتیجہ ہے۔
جو نظام چند طاقتور طبقوں کے گرد گھومتا ہو، وہاں سے تخلیقی ذہن اور با شعور انسان پیدا نہیں ہو سکتے وہاں سے صرف اطاعت گزار، خوف زدہ، اور بے اختیار بندے پیدا ہوتے ہیں۔
جیسا کہ چی گویرا نے کہا تھا
"تعلیم کو دیواروں میں قید نہیں رہنا چاہیے، یہ استحقاق نہیں حق ہے۔”
اور رابرٹ موگابے نے سچ کہا تھا
"ہم نئی نسل کو تعلیم کی اہمیت کیسے سمجھائیں جب ہمارے گرد غریب گریجویٹ اور امیر چور موجود ہوں؟”
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
٭٭٭
Share this content:


