جموں کشمیر کے ضلع باغ کے علاقے نکی کیر میں آج ایک بار پھر وہی منظر دہرایا گیا جس نے ہمارے تعلیمی اور سماجی نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیا۔ شدید سردی میں اسکول کے بچوں اور اساتذہ کو ایک وزیر کے استقبال کے لیے قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا۔وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہونی چاہیے تھی، وہ پروٹوکول کی زینت بنا دیے گئے۔
وہ استاد جسے عزت اور وقار کا محور ہونا چاہیے، اسے سیاسی ضرورتوں کا پس منظر بنا دیا گیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اسکول کے بچوں سے یہ کام لیا گیا، وہ 2005 کے زلزلے کے بعد آج تک عمارت تک سے محروم ہے۔نکی کیر سمیت باغ کے بے شمار تعلیمی ادارے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہیں، مگر پروٹوکول کے لیے ان کے بچوں اور اساتذہ کو فوراً یاد کر لیا جاتا ہے۔
یہ رویہ صرف بدانتظامی نہیں، یہ ذہنیت ہےایسی ذہنیت جو غلام پیدا کرتی ہے۔جس معاشرے میں بچوں کو سیاسی استقبال کے لیے سڑکوں پر کھڑا کیا جائے، وہاں ذہنی غلامی پختہ ہوتی ہے اور حاکمیت مزید مضبوط۔یورپ میں استاد کو ایسا مقام دیا جاتا ہے کہ جج بھی اس کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔وہاں تعلیم طاقت کے تابع نہیں، بلکہ طاقت تعلیم کے تابع ہوتی ہے۔
اور یہاں اساتذہ اور طالبات کو سردی، دھوپ، پروٹوکول اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔جب استاد خوف، دباؤ، تبادلوں اور سیاسی احکامات میں جکڑا ہو تو وہ علم نہیں جھکنا سکھاتا ہے۔لیکن امید کی ایک مثال اس تاریک تصویر کے مقابلے میں آزاد کشمیر ہی کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال میں ایک روشن مثال سامنے آئی۔دولہے مزمل نور نے اپنی شادی کے تمام اخراجات وہاں موجود سرکاری سکول کے نام کر دیے۔
جہاں ریاستی سطح پر تعلیم کی تذلیل کی جاتی ہے، وہاں ایک نوجوان کا یہ قدم بتاتا ہے کہ معاشرہ اگر چاہے تو خود بھی تعلیم کی خدمت کر سکتا ہے۔ایک طرف پروٹوکول کے لیے بچے استعمال کیے جا رہے ہیں،دوسری جانب ایک فرد اپنی خوشیوں کو تعلیم پر قربان کر کے آنے والی نسلوں کو روشنی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
سچی بات یہی ہےتعلیم جب سیاست کی تابع ہو جائے تو قومیں روشنی نہیں، اندھیرے کی طرف بڑھتی ہیں۔اور جب قوم خود تعلیم کو عزت دینے لگے تو تبدیلی اوپر سے نہیں، نیچے سے اٹھتی ہے۔
نکی کیر، باغ کا واقعہ اور نکیال، کوٹلی کا عمل یہ دونوں ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔فیصلہ اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنے بچوں کوکتاب دیں گے… یا پروٹوکول؟
٭٭٭
Share this content:


