تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ | عثمان علی

0
97

پاکستان اکثر خواتین کے لیے بدتر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پہلے تو خواتین کو صرف ملازمتوں کے دوران ہراسانی کے واقعات کا سامنا رہتا تھا مگر اب گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کے کیسز معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جو یقیناً خواتین کو تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ بنتے ہوں گے ہم وہ قوم ہیں کہ جب بھی کوئی سیکنڈل سامنے آتا ہے، کوئی کرب ناک واقعہ پیش آتا ہے، ہم کھل کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے اخبارات اداریے چھاپتے ہیں، الیکٹرانک میڈیا پر پروگرام ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتے ہیں۔ کچھ دن بعد ہم سب بھول جاتے ہیں یا شاید یوں کہا جائے کہ کسی اور واقعے کے منتظر ہوتے ہیں کہ اپنی فرسٹریشن نکال سکیں۔ ہم نے کسی بھی مسئلے پر سنجیدہ مکالمہ ہی نہیں کیا، حل تو دور کی بات ہے۔

ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز کے ایک سروے کے مطابق، تقریباً 23 ٪ انڈر گریجویٹ طالبات نے کالجز میں اپنی سٹڈیز کے دوران زبردستی یا معذوری کے ذریعے غیر متفقہ جنسی تعلق کا سامنا کیا۔ایسا ہی انداز اور رویہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کا بھی ہے جو آج کل (کوٹلی یونیورسٹری ) کا سیکنڈل سامنے آنے کے بعد ہر جگہ زیر بحث ہے۔ اس ضمن میں چند سوالوں پر غور کرنا لازم ہے۔ مثلاً تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کیا شکلیں ہیں؟ پوری دنیا اور پاکستان میں اس کے اعداد و شمار کیا ہیں؟ کیا سوسائٹی کے دوہرے رویے اس کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں؟ اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے عملی جواب تلاش کرنے کے لیے ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز ضروری ہے کہ اس گھٹیا صورت حال کے خاتمے کو کیسے یقینی بنایا جائے۔

مذہبی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے اعداد و شمار:
جنسی ہراسانی مذہبی تعلیمی اداروں میں بھی ہو سکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے یہ کسی بھی دوسری قسم کی تعلیمی اداروں میں ہو سکتی ہے اور اس کے کیسز بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ مذہبی تعلیمی ادارے، کسی بھی دوسری تنظیم کی طرح، طاقت کی حرکیات، صنفی اصولوں، ثقافتی عوامل، اور ادارہ جاتی مسائل سے متاثر ہو سکتے ہیں جو جنسی ہراسانی کے واقعات میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی پر قابو کیسے پایا جائے؟
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی پر قابو پانے کے لیے ایک جامع اور کثیر الجہتی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔ یہ کچھ اقدامات ایسے ہو سکتے ہیں جن کی مدد سے ایسے کیسز میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

اجتماعی شعور کی بیداری :
آگاہی مہم چلائی جائے جو کمیونٹی کو اس بارے میں تعلیم دے کہ جنسی ہراسانی کتنی مضر ہے اور اس کی روک تھام کی اہمیت کیا ہے؟ کثیر سامعین تک پہنچنے کے لیے مختلف مواصلاتی چینلز بشمول ورکشاپس اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے ۔

طاقت کے عدم توازن کا خاتمہ :
طاقت کے عدم توازن کو دور کیا جائے کیونکہ یہ عدم توازن ادارے کا اندر ہراسانی کے واقعات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بلیک میلنگ کا عمل ادارے میں موجود اختیار و اقتدار کے حامل افراد کرتے ہیں۔ اس لیے ایک محفوظ ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے مساوات، شمولیت، اور مشترکہ ذمہ داری کو فروغ دیا جائے۔

تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کیمٹیاں بنائی جائیں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے حوالے سے بھی سوال ہے کہ یہی انتظامیہ ایک طرف طلبہ کو نہ صرف سیاست سے روکتی ہے بلکہ سرکاری سیاسی سرگرمیوں کو بھی تعلیمی اداروں میں پروموٹ کرتی ہے دوسری طرف خود انتظامیہ کا اخلاقی معیار اتنا گھٹیا ہے کہ طالبات کو نمبرات کے لیے ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی ادروں کی انتظامیہ اسٹیبلشمنٹ کی ٹاوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اب عزتوں کے ساتھ بھی کھلواڑ کر رہی ہے جو کہ کسی صورت قابل قبول بات نہیں ہے۔

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی پر قابو پانا ایک مسلسل عمل ہے جس میں تعاون، لگن اور مسلسل بہتری کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کو نافذ کرنے سے اور ساتھ ساتھ احترام اور شمولیت کا کلچر بنانے سے، تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here