گرفتار مبینہ اسلامی شدت پسند ثاقب غنی کا تعلق جماعت الدعوہ یا ٹی ٹی پی سے معمہ حل طلب

جموں کشمیر (کاشگل نیوز) گزشتہ جمعہ آزاد پتن سے گرفتار ہونے والا دہشت گردی کا مبینہ ملزم اصل میں کس تنظیم سے تھا، یہ بات تاحال معمہ ہی ہے۔پولیس اور سکیورٹی اداروں کے مطابق اس کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم ٹی ٹی پی سے ہے۔ تاہم اس کے متعلق دلچسپ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

ثاقب غنی گزشتہ چند سال سے راولاکوٹ میں رہائش پذیر تھا۔ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ (جماعت الدعوہ) کے تعاون سے یہاں آیا اور اسی تنظیم کی مساجد واقع سون ٹوپہ اور راولاکوٹ شہر میں امامت کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔

سون ٹوپہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے والے ایک شہری نے بتایا کہ وہ وہاں نماز جمعہ کی امامت بھی کرتا تھا اور خطبہ بھی دیتا تھا۔ البتہ باقی مساجد کی طرح خطبہ لاؤڈ سپیکر پر نہیں دیا جاتا تھا بلکہ مسجد کے اندر لگے چھوٹے سپیکروں پر ہی دیا جاتا تھا۔

راولاکوٹ میں مسجد القدس کے نام سے قائم لشکر طیبہ کی مسجد کے ایک نمازی نے بتایا کہ گرفتاری سے چند روز قبل ثاقب غنی نے نماز کی امامت کروائی اور بیان بھی کیا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ مسجد میں ایک بینر بھی لگا تھا جس پر ثاقب غنی کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ تاہم یہ بینر اب وہاں نہیں ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کے ایک سٹاف ممبر نے بتایا کہ ثاقب غنی دیرہ گیسٹ ہاؤس کے نزدیک رہائش پذیر تھا۔ اسکا ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل جب انسداد پولیو مہم کی ٹیم وہاں گئی تو ثاقب غنی نے بچے کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا اور انسداد پولیو ٹیم کو برا بھلا کہا۔

انکا کہنا تھا کہ اس واقعے کی رپورٹ ڈپٹی کمشنر کو بھیجی گئی۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ بھی پولیس کے ہمراہ جب ثاقب غنی کے پاس گئے تو ثاقب غنی نے ان سے بھی بدسلوکی کی۔

ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر وقت ممتاز کاظمی نے افسر مال کو ڈیوٹی مجسٹریٹ بنا کر بھیجا۔ تاہم ان کے ساتھ جب ثاقب غنی نے غلط رویہ اپنایا تو انہوں نے کارروائی کے لیے تحریک کی، لیکن کارروائی نہیں ہوسکی۔

ایک اہلکار کے مطابق جماعت الدعوہ کے مقامی ذمہ دار عامر ضیاء نے فون کیا تھا کہ اس کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ شاید کسی اور نے بھی ایسا کہا ہو۔ تاہم اس کے بعد کبھی انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کی شکایت بھی درج نہیں ہوئی۔

ثاقب غنی سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ای سیکٹر کا رہائشی ہے اور اس کے والد پاکستان کے ایک سول وفاقی ادارے کے افسر رہ چکے ہیں۔ ثاقب غنی نے اسلامک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور وہیں پر موجود اپنے کسی یونیورسٹی فیلو کے ساتھ ہی راولاکوٹ آیا ہے۔

ایک ذریعے کے مطابق جمات الدعوہ کے کسی رؤف نامی رکن کے بھائی کے ذریعے وہ راولاکوٹ آیا اور ایک ذریعے کے مطابق عبداللہ نامی کسی دوست کے ذریعے اس نے مکان کرائے پر حاصل کیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ ثاقب غنی کئی سال جس مکان میں رہائش پذیر رہا، وہ ایک حساس ادارے کے دفتر کے بھی چند میٹر کے فاصلے پر گاؤں متیالمیرہ کی حدود میں تھا۔

پولیس اور سکیورٹی اداروں کے مطابق ثاقب غنی کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے، جبکہ اس کو پناہ جماعت الدعوہ نے اپنی مساجد میں دے رکھی تھی۔

ثاقب غنی جماعت الدعوہ کی مساجد میں امامت کروانے کے علاوہ کبھی کبھار دیرہ کھڑک کی ایک مسجد میں بھی امام کی غیر موجودگی میں نماز کی امامت کرتا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت الدعوہ اہلحدیث مسلک کی تنظیم ہے، جبکہ کھڑک دیرہ میں واقع مسجد دیوبند مسلک کی ہے۔

کھڑک دیرہ کی مسجد کے ایک نمازی نے بتایا کہ ثاقب غنی کبھی کبھار نماز کی امامت کرواتا تھا۔ ایسا تب ہوتا تھا جب مسجد میں متعین امام موجود نہ ہو۔ تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ثاقب غنی دیوبند مسلک کے طریقے سے ہی نماز پڑھاتا تھا۔ جس سے کم از کم یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ثاقب غنی جماعت الدعوہ کی مساجد کو اپنے کور کے طور پر استعمال کررہا تھا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ثاقب غنی کے تعلقات اسلامک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے دیگر ان نوجوانوں سے بھی تھے، جن کا تعلق کالعدم قرار دی گئی تنظیم ’حزب التحریر‘ سے ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ثاقب غنی کا تعلق لال مسجد کے اندر کسی سے بھی رہا، جبکہ اسکا عبدالرؤف نامی ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مقیم ہینڈلر سے مسلسل رابطہ تھا۔

ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی اور آئی بی نے اسلام آباد میں ثاقب غنی کے گھر اور زرنوش نسیم کے گھر پر بھی چھاپے مارے ہیں۔ مزید گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔

پولیس کو اس بات پر یقین ہے کہ کانسٹیبل سجاد ریشم کے قتل میں مفرور ملزم زرنوش نسیم اور اس کے ساتھی ملوث ہیں اور ان کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے ہے۔ انکا ہینڈلر بھی عبدالرؤف ہی بتایا جا رہا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ واردات میں استعمال ہونے والی گن بھی مل چکی ہے۔ تاہم زرنوش نسیم نے کچھ ماہ قبل اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔ زرنوش نسیم اور ساتھی تاحال گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے