بلوچستان میں حالات شدید کشیدہ ہیں ،ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ودیگر رہنمائوں کی ماوارئے آئین گرفتاری کے خلاف مستونگ میں کوہ چلتن کے دامن لکپاس کے مقام پر گذشتہ 10 دنوں سے جاری دھرنے کو آج کوئٹہ کی مارچ کرنے سے قبل فورسز نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔
مستونگ اسپتال میں ایمرجنسی بھی نافذ کردی ہے جس سے امکان ہے کہ ریاست پر امن مارچ کے شرکا پر طاقت کا استعمال کرکے تشدد کا راستہ اپنا ئے گی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے کہا ہےکہ بلوچستان کے علاقے ضلع مستونگ میں لکپاس کے نزدیک لانگ مارچ کے شرکا کو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔
پہلے سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق آج دھرنے کے شرکا نے لکپاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کرنا تھا۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
لانگ مارچ کے شرکا کے گھیراؤ کے خلاف بی این پی نے بلوچستان میں تمام شاہراہوں کو بند کرنے کی کال دی ہے۔
خیال رہے کہ بی این پی نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف ضلع خضدار کے علاقے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع کیا تھا۔
انتظامیہ کی جانب سے ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس پر دھرنے کے شرکا کو روک دیا گیا تھا جس پر لانگ مارچ کے شرکا نے وہیں دھرنا دے دیا تھا۔ بی این پی کے زیر اہتمام دھرنا 28 مارچ سے جاری ہے۔
گذشتہ رات بی این پی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار خواتین کی رہائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اس لیے دھرنے کے شرکا اتوار کے روز لکپاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔
بی این پی کے رہنما اختر حسین لانگو کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے لانگ مارچ کو چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ شب مستونگ شہر اور لکپاس کے درمیان بھی پولیس اور دیگر فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب مارچ کی اجازت نہیں دے گی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کے علاوہ اتظامیہ کی جانب سے شاہراہ پر جگہ جگہ رکاوٹیں بھی کھڑی کردی گئی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی پارٹی کے زیر اہتمام پر امن دھرنے کو کوئٹہ کی جانب نہیں آنے دیا جارہا ہے جس پر پارٹی نے بلوچستان بھر میں شاہراہوں کو بند کرنے کی کال دی ہے۔
28مارچ سے اب تک حکومتی سطح پر وزرا کے دو وفود دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کر چکے ہیں جبکہ حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والی بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور وزیر تعلیم راحیلہ درانی گزشتہ روز لکپاس گئی تھیں اور وہاں سردار اختر مینگل سے اس معاملے پر بات کی۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کی جانب سے حکومت کو تین مطالبات پیش کیئے گئے ہیں جن کو ماننا حکومت کے لیے مشکل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ بی وائی سی کی گرفتار خواتین کو رہا کر دیا جائے تو ہم لکپاس سے واپس چلے جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ہمِیں دھرنا دینے کے لیے کوئٹہ جانے دیا جائے کیونکہ اس مقام پر پہلے بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ چکا ہے اور آئندہ بھی پیش آسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تو پھر ہم سب کو گرفتار کیا جائے۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ صرف بی وائی سی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جن خواتین رہنماؤں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ان کے مرد رشتہ داروں کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
انھوں نے دعوی کیا کہ پولیس نے حب میں ان کے والد کو حراست میں لیا ہے تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اس سے قبل حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگر بی این پی کے دھرنے کے شرکا کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو ’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘
کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لکپاس میں بی این پی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک مطالبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت یا ڈاکٹر ماہ رنگ کی رہائی کا تھا جس پر حکومتی وفد کا مؤقف واضح تھا کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اگر عدالتوں سے ان کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ کوئٹہ کی جانب مارچ کا تھا جس پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ ان کو یہ پیش کش کی گئی کہ شاہوانی سٹڈیم سریاب روڈ تک ان کو آنے کی اجازت دی جائے گی لیکن اس پیشکش کو سردار اختر مینگل نے تسلیم نہیں کیا۔
انھوں نے بتایا کہ بی این پی اس بات پر بضد ہے کہ وہ ریڈ زون میں دھرنا دیں گے لیکن بلوچستان حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سرکاری حکام نے 28 مارچ سے ہی کوئٹہ اور کراچی کے درمیان شاہراہ کو لکپاس ٹنل پر کنٹینر لگا کر بند کرنے کے علاوہ لکپاس پر پرانے روڈ کو بھی بند کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ مستونگ، دشت اور کانک سے کوئٹہ براستہ نوحصار کے راستوں پر بھی کنٹینر لگانے کے علاوہ ان پر گڑھے بھی کھود دیے گئے ہیں۔
اگرچہ کوئٹہ اور نوحصار کے درمیان راستے سے تھوڑی بہت گاڑیوں کی آمدو رفت جاری ہے تاہم لکپاس سے کوئٹہ اور کراچی اور کوئٹہ سے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان مرکزی شاہراہ پر ٹریفک گزشتہ نو روز سے بند ہے۔
دو بین الصوبائی شاہراہوں پر ٹریفک کی بندش کی وجہ سے جہاں عام لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں اتنے روز سے ان شاہراہوں پر کنٹینرز اور مال بردار گاڑِیوں کے پھنسنے کی وجہ سے ان کے ڈرائیوروں اور دیگر عملہ بھی مشکلات کا شکار ہے۔
شاہراہوں کی بندش کے ساتھ ساتھ موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو بھی ایک مرتبہ پھر معطل کر دیا گیا ہے۔
تین روز تک موبائل فون انٹرنیٹ سروس کی بندش کے بعد جمعہ اور سینیچر کی شب موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو شب 12 بجے کے بعد بحال کر دیا گیا تھا لیکن 17 گھنٹے کے بعد کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس کو ایک بار پھر معطل کر دیا گیا ہے۔