معاہدہ امرتسر – متحدہ ریاست کا قیام ….. شفقت راجہ

متنازعہ ریاست جموں، کشمیر و لداخ کی ان تینوں اکائیوں کی اپنی اپنی قدیم تاریخ ہے اور اس تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ خطے کبھی مشترک تو کبھی مختلف انتظام میں بھی رہے ہیں۔ تاریخ میں ملک و سلطنت بننے اور بکھرنے کا عمل ہمیشہ جاری رہا ہے، ایسے ہی پنجاب سلطنت کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں شکست، تاوان جنگ اور ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہونے والے حالات میں متحدہ ریاست جموں کشمیر اور لداخ کی جدید سیاسی اکائی 16 مارچ 1846 کے معاہدہ امرتسر میں تشکیل پائی اور اس نئی متحدہ ریاست پر ڈوگرہ راج کا آغاز ہوا جو عملا” ایک صدی پر محیط ہے۔

گزشتہ دنوں سے 16 مارچ کو لیکر معاہدہ امرتسر، متحدہ ریاست اور اسکا جھنڈہ نئے سرے سے زیر بحث ہیں جس میں متحدہ ریاست کے قیام میں اس معاہدہ کی اہمیت جبکہ دوسرے طرف سے اس معاہدہ کی مخالفت کیساتھ اسی متحدہ ریاست کی بحالی کے دعوے بھی ہیں۔ یہ تحریر اس موضوع کو معاہدہ امرتسر، ریاستی پرچم اور ریاستی حال ومستقبل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اس بحث کو کسی انجام پر پہنچانے کی کوشش ہے۔

معاہدہ امرتسر اور ایک نئی سیاسی اکائی کے قیام کو سمجھنے کیلئے ان اکائیوں کی معاہدہ سے پہلے کی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ لداخ کا سارا خطہ چھوٹے راجواڑوں میں تقسیم تھا جو اکثر تبت کی باجگزار تھے جنہیں جموں کے حکمران گلاب سنگھ نے 1834 سے 1842 کی جنگی مہمجوئی میں جموں کیساتھ ملایا تھا۔ خطہ جموں جو خود 1822 میں گلاب سنگھ کی حکمرانی سے پہلے دو درجن کے قریب چھوٹے راجواڑوں یا ریاستوں میں تقسیم تھا اور جسے گلاب سنگھ نے ایک مشترکہ انتظامی مرکز جموں میں لایا۔

جموں کے پاس مقامی حکومت، اپنی فوج، ٹیکس وصولی کے اختیار اور داخلی خودمختاری کے ساتھ ایک ریاستی ڈھانچہ موجود تھا تاہم پنجاب دربار کی حاکمیت اعلیٰ بھی تسلیم شدہ تھی۔ کشمیر جو کہ 1586 سے مغلیہ، افغان اور خالصہ پنجاب سلطنتوں کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا جس کا صوبہ دار یا گورنر دہلی، کابل اور لاہور سے مقرر کیا جاتا تھا۔ یعنی معاہدہ امرتسر سے پہلے یہ تینوں اکائیاں ایک آزاد ریاست کی حیثیت یا کوئی مشترکہ انتظام بھی نہیں رکھتی تھیں۔

جنگ کے نتیجے میں تاوان جنگ اور علاقوں کے تبادلہ میں نئی ریاست کا قیام اس نوآبادیاتی عہد کے مروجہ عالمی اصولوں کے مطابق تھا اور اسکی مثالیں چین کی برطانیہ کو ہانگ کانگ کی حوالگی( 1842)،فرانس کی جرمنی کو السیس لورین کی سپردگی (1871), چین کی تائیوان سے دستبرداری اورجاپان کی عملداری (1895), پہلی جنگ عظیم میں شکست کے نتیجے میں جرمنی اور سلطنت عثمانیہ نے متعدد علاقے اتحادی ممالک کو سپرد کیے (1919) اور دوسری جنگ عظیم میں بھی جرمنی کئی یورپی علاقوں اور جاپان بھی تائیوان سمیت دیگر علاقوں سے دستبردار ہوا۔

اب اگر پیسے کے بدلے علاقوں کے تبادلہ میں دیکھا جائے تو پھر 1803 میں امریکہ نے فرانس سے 828000 مربع میل لوزیانا کا علاقہ پندرہ ملین ڈالر میں خریدا اور 1867 میں 17 لاکھ مربع کلومیٹر الاسکا کا علاقہ 72 لاکھ ڈالر میں روس سے خریدا تھا، امریکہ نے اسی طرح فلوریڈا اور ٹیکساس سمیت کئی دیگر علاقے سپین، میکسیکو، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک سے حاصل کئے گئے تھے۔ یوں جب ہم جنوبی ایشیا کی طرف آئیں تو 1868 میں ڈنمارک نے نیکوبار جزائر برطانیہ کو فروخت کئے تھے، بھارت نے 1947 میں آزادی کے بعد مزاکرات و معاہدات کے ذریعے 1951 میں فرانس سے چندرنیگور اور بعدازاں 1962 میں پانڈے چری علاقہ حاصل کیا تھا اور اسی طرح 1961 میں پرتگال کے نوآبایاتی علاقے گوا (Goa) سمیت سمیت بھارت میں شامل کیے گئے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آجکل انتہائی اہمیت کا حامل ,5870 مربع میل “ گوادر “ کا ساحلی علاقہ ستمبر 1958 میں پاکستان نے ساڑھے پانچ ارب روپے میں سلطنت امان سے خریدا تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب 1858 میں ہندوستان کو برطانوی حکومت کے حوالے کیا تو 15 لاکھ پاؤنڈز سالانہ کمپنی کو معاوضہ دینے کا معاہدہ ہوا۔ 1874 میں جب حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کیا تو کمپنی کو 200 ملین پاؤنڈز کا معاوضہ دیا گیا تھا۔ معاۂدہ امرتسر کیلئے مخصوص عینک رکھنے والے ناقدین کی نظر سے دیکھیں تو پھر پورا ہندوستان ہی بیچا اور خریدا گیا جس میں کھیت کھلیان پہاڑ دریا چرند پرند اور اشرف المخلوقات حضرت انسان بھی اس قدر کم قیمت میں بیچے اور خریدے گئے تھے مگر وہاں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اب ہم معاہدہ امرتسر کی طرف آئیں تو وہ بھی اوپر دی گئی مثالوں سے مختلف نہیں ہے۔

سلطنت پنجاب کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں شکست پر ڈیڑھ کروڑ روپے کے تاوان جنگ میں سے پچاس لاکھ ہی کی ادائیگی ممکن ہو سکی اور باقی ایک کڑوڑ روپے کے بدلے پنجاب سلطنت نے 9 مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور میں دریائے ستلج کے جنوبی علاقے اور پھر کشمیر ، ہزارہ اور ملحقہ پہاڑی علاقہ سمیت دریائے بیاس اور دریائے سندھ کے درمیان تمام وسیع و عریض خطے کمپنی بہادر کے سپرد کر دئیے جبکہ جموں کے حکمران گلاب سنگھ کے زیراختیار جموں لداخ و دیگر علاقے پر اسکی مختار حکومت کو بھی تسلیم کیا گیا۔

اسکے بعد 16 مارچ 1846 میں کمپنی بہادر نے 75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر ، ہزارہ اور ملحقہ پہاڑی علاقوں سمیت دریائے سندھ کے مشرقی اور دریائے راوی کے مغربی تمام علاقے جموں کے حکمران گلاب سنگھ کے مکمل اختیار میں دے دیے۔ اس معاہدے میں کشمیر ہزارہ سے لیکر چمبہ تک متعدد علاقے جموں لداخ ریاست کیساتھ شامل کئے گئے تو پھر متحدہ ریاست جموں کشمیر و تبت ہا (لداخ) کی نئی سیاسی اکائی وجود میں آئی۔ یہ معاہدہ اس نوآبادیاتی عہد کے مروجہ اصولوں کے عین مطابق اور دونوں فریقین کے مفاد میں تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کاروباری ادارہ تھا جسکی مالی ضرورت پوری ہونے کے علاوہ تزویراتی (Strategic) لحاظ سے بھی شمال میں روس، چین اور افغانستان کی طرف سے ہونے والی کسی بھی پیش قدمی کو روکنے میں وہی ریاست جموں کشمیر و لداخ ایک حائلی ریاست یعنی Buffer State کا کردار ادا کریگی۔ اس معاہدے میں گلاب سنگھ کو نہ صرف جموں لداخ بلکہ کشمیر کی حکمرانی کا بھی تحفظ مل گیا تھا۔ معاہدہ کے مطابق نئی متحدہ ریاست جموں کشمیر واقصائے تبت لداخ اندرونی طور خودمختار جبکہ خارجہ و دفاعی امور میں برطانوی حکومت کی شراکت داری کیساتھ تاج برطانیہ کی حاکمیت اعلی کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔

معاہدہ لاہور کو نظرانداز کرتے ہوئے معاہدہ امرتسر پر اعتراضات بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں کہ اس معاہدہ میں ایک کاروباری خرید و فروخت ہوئی جس میں لوگوں کی مرضی کے بغیر ایک غیرفطری اورجبری ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یاد رکھئے کہ ریاستوں کا قیام کسی فطری عمل سے نہیں بلکہ یہ سیاسی، معاشی و تزویراتی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے اور اوپر دی گئی مثالوں میں پوری دنیا میں جنگوں کے بعد ایسے معاہدات ہوئے ہیں جن میں ایسے ہی تاوان جنگ یا پیسوں کے عوض علاقوں کا تبادلہ ہوا اور مختلف ادوار میں یونہی دنیا کے نقشے بھی بدلتے رہے ہیں۔

لہٰذا معاہدہ امرتسر میں علاقوں کا تبادلہ اور متحدہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کا قیام اس عہد اور حالات کے مطابق ہے جس پر آج کے ان اصولوں کا اطلاق ضروری نہیں جو اصول انہی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے اعلان کے بعد بنائے ہیں جو ماضی میں خود ایسے معاہدات کرتے رہے ہیں۔ معاہدہ امرتسر پر تمام اعتراضات کے باوجود اس بات پر اتفاق رائے ضرور ہے کہ متحدہ ریاست جموں، کشمیر اور لداخ بشمول گلگت بلتستان وحدت کی بنیاد یہی معاہدہ ہے ۔

لہذا اس معاہدہ کی نفی کرنے سے دراصل ریاستی وحدت کی بھی نفی ہوتی ہے تاہم معاہدہ کی حمایت یا مخالفت سے اسکے تاریخی وجود پر بہرحال کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اب یہ معاہدہ کے متاثرین یعنی ریاستی شہریوں پر منحصر ہے کہ وہ اس ریاستی وحدت کی حمایت کریں یا معاہدہ امرتسر توڑ دو کشمیر چھوڑ دو جیسا نعرہ لگا کر اس وحدت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور آج کی اس متنازعہ ریاست کے مکمل خاتمے کی بھی حمایت اور مطالبہ کریں۔ وادی کشمیر کی طرف سے یہ مطالبہ قابل فہم ہے کیونکہ معاہدہ امرتسر میں 75 لاکھ روپے کے عوض اسے جموں لداخ سے جوڑا گیا تھا اسلئے نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ نے معاہدہ توڑنے اور وادی کشمیر کی متحدہ ریاست سے علیحدگی کا نعرہ لگایا تھا، ریاست کو توڑنے کا مطالبہ کرنے والے وہی شیخ عبداللہ آج بھی متحدہ ریاست کے دعویدار ہمارے کچھ غیرکشمیری قوم پرست اورترقی پسند دوستوں کیلئے نظریاتی رہبر بھی ہیں۔

مجھے شیخ صاحب کے اس شفاف نظریاتی موقف اورمعاہدہ امرتسر کی مخالفت پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے تھے ریاست جموں کشمیر و لداخ کی وحدت کی دلیل اور بنیاد بہرحال یہی معاہدہ امرتسر ہے۔ اب ہمارے “آزادکشمیری” سیاسی کارکنان کو بھی اتنا ادراک ہونا چاہئے کہ بیک وقت معاہدہ امرتسر کی مخالفت اور ریاستی وحدت کی حمایت کوئی منطقی اور عقلی طرز عمل نہیں بلکہ یہ نظریاتی تضاد ہے، سیاسی موقف میں شفافیت کیلئے اس نظریاتی تضاد اور تاریخی ابہام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے