مظفرآباد ( کاشگل نیوز)
31 مارچ 2025 کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد جموں وکشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے افغان باشندوں کی واپسی کا سلسلہ حکومتی سطح پر جاری ہے۔ حکام کی جانب سے غیر قانونی اور بغیر دستاویزات مقیم افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔
جموں و کشمیر پولیس نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ 31 مارچ کے بعد کسی بھی غیر قانونی افغان باشندے کو پناہ دینا قانوناً جرم تصور کیا جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یکم اپریل سے اب تک تقریباً 944 افغان خاندانوں کو، جن میں لگ بھگ 6,700 افراد شامل ہیں واپس بھیجا جا چکا ہے۔ ان افراد کو ابتدائی طور پر لنڈی کوتل کے ٹرانزٹ سینٹر منتقل کیا گیاجہاں ضروری کلیئرنس کے بعد انہیں طورخم بارڈر کے راستے ملک بدر بھیج دیا گیا۔ بھیجے گئے افراد میں 2,874 مرد، 1,755 خواتین اور 2,071 بچے شامل ہیں۔ یہ مرحلہ وار عمل 17 ستمبر 2023 سے جاری ایک بڑے آپریشن کا حصہ ہے۔
راولپنڈی اور دیگر شہری علاقوں میں پولیس اور امیگریشن ادارے ایسے افغان باشندوں کی شناخت اور واپسی کے لیے سرگرم ہیں جو نہ تو رجسٹریشن کارڈ (PoR) رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے افغان سٹیزن کارڈز (ACC) مؤثر ہیں۔ اپریل کے آغاز سے اب تک صرف راولپنڈی سے 353 افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں گولڑہ موڑ کے پروسیسنگ مرکز میں رکھا گیا ہے جہاں ان کو بھیجنے کی کارروائی جاری ہے۔ حکام کے مطابق یہ مہم آنے والے دنوں میں مزید تیز کی جائے گی۔
پشاور میں افغان کاروباری افراد نے عید کے بعد حکومتی دباؤ کے باعث دکانیں بند کر دی ہیں۔ دوسری جانب ملک گیر تصدیقی مہم کے دوران جعلی شناخت ظاہر ہونے پر متعدد افغان شہریوں کے شناختی کارڈز منسوخ کیے گئے ہیں۔ راولپنڈی میں ACC رکھنے والے 50 سے زائد افغان باشندوں کو عارضی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں سے انہیں واپس بھیجا جائے گا۔ کراچی میں بھی 162 افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے ACC کارڈز کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔
حکام کے مطابق اب تک 16 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدری کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں جاری ہیں تاکہ حکومتی احکامات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم ایسے افغان شہری جن کے پاس درست PoR کارڈ موجود ہیں انہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔