ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے دیگر رہنمائو ں کی رہائی کے لئے بلوچستان نیشنل پارٹی کی کال پر آج دوسرے روزبروزپیرپورے بلوچستان میں ہڑتال رہی ،شاہراہیں وکاروباری مراکز بند رہے ،کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے و ریلیاں نکالی گئیں جبکہ سردار اختر مینگل کے آبائی علاقے وڈھ میں فورسز کی نہتے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ سے 5 افراد کے زخمی ہو نے کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔
ریاستی ہٹ دھرمی تاحال جاری ہے آج کوئٹہ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک اور رہنما گلزادی بلوچ کو فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
جبکہ بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ سروس بھی گذشتہ کئی دنوں سے معطل ہے۔
بی این پی کے لانگ مارچ کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے خلاف آج دوسرے دن بھی بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور شاہراہوں کی بندش جاری ہے۔
کوئٹہ،خضدار، وڈھ،دالبندی، نوشکی،نوکنڈی، تربت، قلعہ سیف اللہ، سوراب، بُلیدہ، نال، قلات، حب، زہری، بسیمہ، جیونی، گوادر سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں شٹرڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔
علاوہ از ایں کوئٹہ سمیت بیشتر اضلاع میں بی این پی رہنماؤں کے گھروں کا محاصرہ کیا جا رہا ہے، چادر چار دیواری کی پامالی ہو رہی ہے اور گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
وڈھ میں حالات بدستور کشیدہ ہیں، کیونکہ سیکورٹی فورسز نے پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے کئی کارکن شدید زخمی ہوئے ہیں۔
مظاہرین کی بڑی تعداد اس مقام پر جمع ہے جہاں سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کی۔
سیکورٹی فورسز نے بھیڑ کو منتشر کرنا چاہا تاہم مظاہرین نے احتجاج جاری رکھا۔
وڈھ کی صورتحال کے حوالے سے بی این پی کا کہنا ہے کہ وڈھ میں آج صبح بی این پی کے احتجاجی مظاہرے پر ریاستی بربریت کی انتہا کر دی گئی ۔ براہ راست فائرنگ، شیلنگ سے اب تک کم از کم پانچ مظاہرین زخمی ہیں۔ جب کہ ریاستی جبر کے باوجود بی این پی کارکنان میدان میں ڈٹے رہے اور اب تک وڈھ میں احتجاج جاری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کا احتجاج گیارہویں روز میں داخل ہوچکا ہے۔
سردار اختر مینگل اور ہزاروں کی تعداد میں لانگ مارچ کے شرکاء مستونگ میں لک پاس کے مقام پر بیابان میں محصور ہیں۔
بی این پی کا کہنا ہے کہ بی این پی قائدین سمیت ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ہم پر امن ہیں، مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھو۔ ہم پر چلائی گئی ہر گولی ہمیں یاد ہے۔ ہر ظلم ہمارے دل پر نقش ہے۔ ہم خاموش نہیں، اور نہ ہی ہمارا سفر ختم ہوا ہے۔ ہماری آواز ہمارا ہتھیار ہے، اور ہم اسے طوفان کی طرح بلند کریں گے۔ بے خوف، بے لچک۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بی این پی کے آفیشل ہینڈل پر گولیوں کی ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ "یہ وہ گولیاں ہیں جو وڈھ کے لوگوں پر پولیس، لیویز اور ایف سی کی بربریت کے بعد چھوڑ گئے تھے۔ ایک ظالمانہ یاد دہانی، جو ہمارے اپنے ٹیکس کی رقم سے ادا کی گئی، نظام کی طرف سے ایک تحفہ (POF) جس کا مقصد ہماری حفاظت کرنا ہے۔
بی این پی نے وڈھ میں نہتے مظاہرین پر فورسز کی براہ راست فائرنگ کی ویڈیو بھی جاری کی جس میں فورسز کی بربریت صاف نظر آرہی ہے ۔
جبکہ گولیوں سے زخمی ہونے والے افراد کی تصاویر بھی بی این پی نے جاری کردی ہیں جو تشویشناک ہیں۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما گلزادی بلوچ کو بھی کوئٹہ پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گلزادی بلوچ کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلزادی کو سی ٹی ڈی اور پولیس نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
بی وائی سی ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کی گرفتاری و بندش کے بعد اب گلزادی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ان خواتین رہنماؤں کی رہائی کیلئے گزشتہ 11 روز سے سردار اختر مینگل کی قیادت میں مستونگ لکپاس پر دھرنا دیا جا رہا ہے جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجات بلوچستان بھر میں جاری ہیں۔