آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔؟؟؟ شبیر مایار

جن پہاڑوں کو چیر کر بڑی مقدار میں قیمتی اور نایاب معدنیات نکال کر باہر کی دنیا کو ہم خود نہیں دے سکتے مگر باہر کے لوگ یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟

زمینیں ہماری ہیں مگر مالک ہم نہیں زمینوں کی بندر بانٹ کا اختیار غیر مقامی انتظامیہ کے پاس ہے ہمارے پاس نہیں
ایسا کیوں ہے؟

ہماری چراہ گاہوں پر ہماری مرضی سے نہیں بلکہ رہین منت سرکار کے کندھوں پہ بندوق رکھ کے غیروں کی منشاء کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں ۔
ایسا کیوں ہے؟

ایک ہی شہر میں زمینوں کے اصل مالک اندھیروں میں بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اسی شہر میں غیر مقامی ملازمین اور ان کے مقامی گماشتوں کو زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک بااختیار کا بیٹا آکسفورڈ اور مانچسڑ یونیورسٹی سے علم حاصل کرے لیکن غریب کے بچوں کو گاؤں کے سرکاری اسکول میں تعلیم اور معلم میسر نہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔؟

ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ

ایک بالادست اور دوسرا زیر دست ہے ۔ جہاں ڈگریاں پیروں (بوٹوں) تلے روندی جائیں، جہاں جعلی ڈگری والے اقتدار میں اور اصل قیادت زندان اور شیڈول فورتھ، تھری ایم پی او جیسے کالے قوانین کے جبر کا شکار ہوتے ہوں۔ وہاں سچ اور حق کی بات کرنے والوں، اپنی دھرتی سے عشق کرنے والے بیٹوں کے خلاف بذریعہ مقامی سہولت کاروں کے افواہوں کا بازار گرم کر کے وسائل کی لوٹ مار، چراہ گاہوں ، معدنیات، اور سیاحت پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔

ایسا اس لئے ہے کہ
ترقی کے نام پر گلگت بلتستان میں بڑے پروجیکٹ رکھنے کا شور شرابہ ہوتا ہے مگر وہ صرف پیسوں کی بندر بانٹ کی نذر ہوتا ہے جیسے ہم گذشتہ چالیس سالوں سے شتونگ نالہ کے منصوبے اور بیس پچیس سالوں سے غواڑی پاور پروجیکٹ، ہرپور پاور پروجیکٹ، شغرتھنگ روڈ ، سکردو شہر کے بائی پاس روڈ ، کا سنتے آرہے ہیں مگر جوں اور توں کی کیفیت میں موجود ہیں۔
یہ ایک ملک کے زیر انتظام دو قوموں اور دو علاقوں کا نقشہ ہے یہاں سب پکے مسلمان ہیں سب کندھے سے کندھا ملا کر نماز پرھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، حج ،عمرہ اور زیارتوں پر بھی جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

دنیا میں محکوم صرف محکوم ہوتا ہے چاہے غلام مسلمان کا ہو چاہے انگریز یا امریکہ کا۔۔۔۔

گزشتہ آٹھ دھائیوں سے جاری لوٹ مار کی پالیسی آخر کب تک جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔؟؟؟

٭٭٭