ہر سال تین مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم صحافت منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد سے اظہار یکجہتی ،خدمات کا ا عتراف اور ان کے جملہ حقوق کےتحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی پیشہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے ہر سال دنیا بھر میں صحافت کا دن منانے کے باجود صحافیوں کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی حقوق ،جمہوریت ہو یا آمریت صحافت کو لونڈی بنانے اور صحافت کی اصل روح کے مطابق اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھانے والے صحافیوں کو ہمیشہ زیر عتاب رکھنے کے ساتھ مشق ستم بھی بنایا جاتا ہے ۔
صحافت سماج کا آئینہ ہے ایک صحافی کا کام قلم اور کیمرے کے ذریعے معاشرے کا حقیقی عکس دکھانا ہے المیہ ہے کہ صحافت پر سرمایے کا غلبہ اور صحافت سرمایے کی قید میں بند ہونے کی وجہ سے صحافت کی اصل روح کو قبض کیا جاتا ہے، صحافی کی زبان کاٹ دی جاتی ہے، کارپورٹ میڈیا ،نسبتی ،زرد ،انجمن ستائش باہمی اور فدویانہ صحافت میں قلم بک جاتا ہے صحافت کو جس آئینے سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ آئینہ ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتا ہے اور سماج کو آئینہ دکھانے کا دعوی کرنے والا خود اس آئینے میں کبھی اپنا عکس دیکھنا گوارہ نہیں کرتا جوسچائی کا چراغ جلا کر گمنام اور تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں یا جن صحافتی اداروں کو آمریت اور جمہوریت میں وقت کے حکمرانوں نے زیر عتاب رکھا اور صحافت کا جنازہ نکالنے کی بھونڈی کوشش کی اور فسطائیت اور فاشزم کا حصہ بن گئے۔ تاریخ نے ان کو کبھی معاف نہیں کیا و ہ اپنے آخری آیام میں نشان عبرت بن گئے۔
ماضی میں "زمیندار” "کوہستان” "امروز ” اور اس کے بعد دیگر اخبارات اور ان سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ رہا ہے پچاس کی دہائی میں بھی صحافی محفوظ نہیں تھے ا ور آج کے دور میں بھی محفوظ نہیں جنہوں نے اس شعبے مپں سچائی کے پرچار کو اپنا مقصد اور مشن بنایا ہے ان کے پاس جینے کی ایک وجہ ہے اس لیے وہ آج بھی ناقابل یقین حالات سے لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کا کردار بڑھ گیا ہے سابق حکومتوں بالخصوص سابق صدر مشرف کے دور حکومت میں بیرونی امدا د اور معیشت کے بلبلے اٹھ رہے تھے اس وقت صحافت کے شعبے میں ماضی کی نسبت سب سے زیادہ سرمایہ کاری دیکھنے کو ملی سرمایہ کاری چونکہ نجی سطح پر ہوتی ہے اس لیے کمرشلائزیشن کے ساتھ صحافت سرمایے کی قید میں بند ہوکر رہ گئی اس کے بعد یہ دعوی بھی کھوکھلا ہو کر رہ گیا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے سرمایے کے ملبے دبنے سے دیگر ستونوں کی طرح یہ ستون بھی تماشا بن گیا آج ہر حساس معاملہ اور عوامی ایشو پر مذاکروں،تبصروں اور تجزیوں کی شکل میں ایک تماشا لگا رہتا ہے لیکن رائے عامہ ہموار نہیں ہوتا چونکہ آج کا میڈیا کسی بھی نوعیت کے مسئلے کا حقیقی عکس دکھانے میں ناکام ہے۔
صحافت آج بھی پیمرا اور مقتدر ریاستی اداروں کے کنٹرول میں ہے آج سرکاری اشتہارات اور دیگر زرائع کے نام پر کسی بھی اخبار یا چینل کے منہ میں الفاظ ٹھونس دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو درپیش حقیقی مسائل دب جاتے ہیں یا انہیں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت بلیک آؤٹ رکھا جاتا ہے۔موجودہ کارپوریٹ میڈیا کے دور میں انفرادی طور پر کچھ صحافیوں کو بات کرنے کا انتہائی سطحی سا موقع مل جاتا ہے مگر مالکان کا حتمی مقصد اور مطمع نظر خبر یا رائے کو ایک شے کے طور پر بیچ کر زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے میڈیا کی آزادی محض ایک کھوکھلا نعرہ اور میڈیا اپنی بنیاد میں ہی نسبتی اور فروعی بن جاتا ہے ۔
ریاستی بحرانوں ،دراڑ وں اور اداروں کے اندر پڑنے والے شگاف کے دور میں میڈیا کی برائے نام آزادی اس حد تک دھندلا ہوجاتی ہے کہ اس کا وجود ہی نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے اگر میڈیا ریاستی پروپیگنڈے کیلئے بطور اوزار استعمال ہورہا ہو اور عوام کے مسائل دبنے کے ساتھ بلیک آؤٹ بھی ہورہے ہوں تو میڈیا اپنا وجود حقیقی مع نوں میں کھو دیتا ہے ۔
پاکستان صحافیوں کیلئے ہمیشہ سے ایک خطرناک ملک رہا ہے یہاں صحافیوں کا اغواء ٹارچر ،قتل اور ان کی ملک بدری معمول کا حصہ ہے ملک کے اندر صحافت کی اصل روح کے مطابق ذمہ داریاں پوری کرنا جان جوکھوں کا کام ہے اس کی قیمت جان سے جانے یا معاشی موت کی شکل میں چکانا پڑتی ہے ایک ایسا طبقہ جو اپنی جان پر کھیل کر ہرقسم کے مسائل قلم اور کیمرہ کے ذریعے ایوانوں میں اجاگر کرتا ہے اس کی اپنی زندگی ہمیشہ ریاست ،حکومت ،ریاستی اداروں اور مالکان کے سامنے گروی رہتی ہے یہی وہ طبقہ ہے جس کی نہ جان محفوظ اور نہ حقوق آج صحافتی اداروں میں قلمکار محنت کشوں کا بدترین معاشی استحصال ہورہا ہے وہ ناقابل بیان ہے ویج ایوارڈ بورڈ کے تحت صحافیوں کو حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کے باوجود آج بھی یہ قلمکار محنت کش بدترین استحصال کا شکار ہیں ۔
قلیل اجرتوں ،اجرتوں کی وقت پر عدم ادائیگی ،اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے عدم اضافہ ،تمام الاؤنسز اور مراعات کی عدم فراہمی ،اداروں میں کام کرنے کیلئے سازگار ماحول کی عدم فراہمی ،ذہنی دباؤ اور معاشی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا آج ہر میڈیا ورکر کو سامنا ہے ۔
ہر حکومت صحافیوں کی فلاح و بہبود کے دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً کوئی کام نہیں ہوتا ہر ادارہ صحافت کے محتاج جبکہ ہر میڈیا ورکر میڈیا ہاؤسز مالکان کے محتاج ہے اس لیے ذہنی اور تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ نے اور صحافیوں کا کام میڈیا کا پیٹ بھرنا رہ گیا ہے۔77 سال گزرنے کے باوجود ایک جامع ،مربوط ،ٹھوس اور قابل عمل میڈیا پالیسی ابھی تک نہیں بنائی گئی البتہ یہ ضرور ہوتا ہوا آیا ہے کہ ہر حکومت اپنے دور میں اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے قتل عام کیلئے نت نئے قوانین بناتی ہے تاکہ میڈیا کو مٹھی میں بند کیا جاسکے اب جبکہ سوشل میڈیا کے دور میں خود ساختہ قوانین کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہی موجودہ دور میں صحافت کے شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کو سرمایے کے قید سے آزاد اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے تمام حقوق ،مراعات اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے عوام کی حقیقی آواز کو ایوانوں میں اجاگر کرنے ،عوام ،ریاست ،حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے اور جمہوریت کی آبیاری اور فروغ کیلئے آزادی صحافت ناگزیر ہے۔
٭٭٭
Post Comment