بلوچستان میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے پانچ رہنمائوں سمیت چھ افراد کی تین ماہ سے زائد کے عرصے بعد منگل کے روز مختلف مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی گئی اور ان مقدمات میں انسداد دہشت گردی کوئٹہ کی عدالت نے ان کو دس روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
ان کی گرفتاری کوئٹہ کے دو تھانوں سول لائنز اور بروری روڈ پولیس سٹیشنز میں درج مقدمات میں ظاہر کی گئی ہے۔
اس سے قبل ان کو 3 ماہ کے زائد کے عرصے سے تھری ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھا گیا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے تین ماہ سے زائد کے عرصے تک انھیں ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھنے کے بعد مقدمات میں ان کی گرفتاری کو ظاہر کرنے کے اقدام کو حکومت کی بدنیّتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’انھیں انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے قانون کو پامال کیا گیا۔‘
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے پانچ رہنمائوں سمیت چھ افراد کو سخت سکیورٹی میں سیشن کورٹس میں واقع سعادت بازئی پر مشتمل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ان میں بی وائی سی کی دیگر رہنمائوں میں بیبو بلوچ ، گلزادی بلوچ ، صبغت اللہ شاہ جی اور بیبرگ بلوچ کے علاوہ نیشنل پارٹی کے سینیئر کارکن اور بیبو بلوچ کے والد غفار بلوچ شامل تھے۔
ان میں سے مردوں کو ہتھکڑی لگا کر عدالت لایا گیا تھا جن میں سے بیبرگ بلوچ بھی شامل تھے جو کہ دو پیروں سے معزور ہونے کے باعث وہیل چیئر پر ہیں۔
نادیہ بلوچ ایڈووکیٹ کے مطابق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے عدالت کی توجہ بیبرگ بلوچ کی جانب دلاتے ہوئے کہا کہ ’جسمانی طور پر ایک معذور شخص جو کہ اپنے پیروں پر چل نہیں سکتے کو بھی ہتھکڑیاں لگانے سے گریز نہیں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بیبرگ بلوچ کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی جائیں۔‘
نادیہ بلوچ نے بتایا کہ تمام گرفتار افراد کو ریمانڈ کے لیے دو تھانوں میں درج ایف آئی آرز میں عدالت میں پیش کیا گیا جن میں سول لائنز پولیس اسٹیشن اور بروری روڈ پولیس اسٹیشن شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نیشنل پارٹی کے رہنما غفار بلوچ کا نام کسی بھی ایف آئی آر میں درج نہیں ہے جس پر ہم نے عدالت میں اعتراض اٹھایا کہ جب وہ کسی ایف آئی آر میں نامزد نہیں ہے تو ان کو رہا کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اعتراض پر بروری پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ جن لوگوں کا نام ایف آئی آر میں نہیں ہے تو وہ ’وغیرہ‘ (یعنی نامعلوم ملزمان) میں شامل ہیں اس لیے وہ بھی ان مقدمات میں نامزد ہیں۔‘
نادیہ بلوچ نے بتایا کہ ’دونوں تھانوں میں درج ایف آئی آرز میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بی وائی سی کے رہنمائوں سمیت چھ افراد کو دس روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔ انتقامی کاروائی کے لیے قانون پامال کیا گیا۔‘نادیہ بلوچ نے بتایا کہ ’ریمانڈ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ خواتین کو سول لائنز پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا ہے جبکہ مردوں کو بروری سٹیشن منتقل کرنا چاہیے تھا لیکن ان کے بقول انھیں وہاں منتقل کرنے کی بجائے کینٹ پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا۔‘
انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ ہائیکورٹ کا ریویو بورڈ کا اجلاس ساڑھے بارہ بجے ہوگا جس میں ایم پی او کے بارے فیصلہ ہونا تھا لیکن ان کے بقول اس سے قبل ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گرفتار افراد کو پیش کرکے ان کا ریمانڈ حاصل کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر گرفتار افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے پہلے ان کو بدنیتی کی بنیاد پر ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھا گیا اور اب ان کی گرفتاری کو مختلف مقدمات میں ظاہر کیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’بیک وقت ایم پی او اور کسی مقدے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا لیکن بی وائی سی کے رہنمائوں کے حوالے سے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے حکومت اور پولیس کی جانب سے قانون کی پامالی کا نوٹس نہیں لیا گیا۔‘
Share this content:


