اگر تاریخ ہماری رہنما ہے، تو ہمیں لمحۂ موجود کے ہر مظہر کو محض واقعات کے تسلسل میں دیکھنے کے بجائے اس کے پس منظر، محرکات اور ممکنہ انجام کے تناظر میں پرکھنا ہوگا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JACC) کا ظہور کوئی حادثہ نہیں بلکہ عشروں پر محیط معاشی استحصال، سیاسی بےحسی اور ریاستی جبر کے خلاف عوامی شعور کا فطری ابھار ہے۔
پہلا منظر: تحریک کا آغاز — روشنی کی ایک کرن
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے آزادکشمیر کی تاریخ میں ایک انوکھا باب رقم کیا۔ بجلی، آٹا، گھی، پیٹرول اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں بے قابو اضافے کے خلاف جب ہر ادارہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا، تب اسی کمیٹی نے عوامی جذبات کو آواز دی۔ عوامی ریلیاں، پہیہ جام، شٹر ڈاؤن اور احتجاجی مارچ صرف غصے کا اظہار نہیں تھے بلکہ یہ ایک طبقاتی جدوجہد کی ابتدائی جھلکیاں تھیں۔ پہلی بار عام آدمی نے محسوس کیا کہ وہ تنہا نہیں — اس کے دکھ سکھ کی بازگشت پہاڑوں سے ٹکرا کر ایوانوں تک پہنچ رہی ہے۔
دوسرا منظر: تنظیمی خلا اور سوالیہ نشان
تاہم، ہر تحریک کے لیے صرف عوامی غصہ کافی نہیں ہوتا۔ ایک دیرپا اثر ڈالنے کے لیے منظم سوچ، نظریاتی پختگی اور واضح حکمت عملی ناگزیر ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں JACC کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بنتا ہے۔ کمیٹی کے اندر قیادت کا فقدان، نظریاتی غیر وضاحت اور تنظیمی دھارے کی کمی نے اس کی سمت کو دھندلا دیا ہے۔ اگر ہر احتجاج کے بعد قیادت پسپائی اختیار کرے یا وقتی مطالبات پر مطمئن ہو جائے، تو یہ تحاریک وقتی ابال بن کر رہ جاتی ہیں۔
تیسرا منظر: ریاستی ردعمل — دھونس یا مفاہمت؟
ریاست نے ابتدا میں طاقت کا استعمال کیا، گرفتاریاں، تشدد، میڈیا بلیک آؤٹ — لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ جبر ہر سوال کا جواب نہیں۔ یوں مظفرآباد میں مذاکرات کی میز سجی، مطالبات سنے گئے، کچھ تسلیم ہوئے، اور کچھ وقت کی گرد میں دب گئے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ جمہوریت نے جیت لی، ایک خوش فہمی ہے۔ اس پسپائی میں ریاستی چالاکی بھی شامل ہے اور عوامی دباؤ کی فتح بھی۔
چوتھا منظر: مستقبل کا دھارا — روشن امکانات یا تاریک دہلیز؟
اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے اندر چار عناصر پیدا کر لے —
- نظریاتی بنیاد
- عوامی شعور کی مسلسل آبیاری
- داخلی جمہوریت اور شفاف قیادت
- علاقائی اور طبقاتی ہم آہنگی
تو اس کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ یہ آزادکشمیر میں ایک متبادل عوامی پلیٹ فارم بن سکتا ہے جو محض احتجاجی سیاست تک محدود نہ ہو بلکہ پالیسیاں دینے، لیڈر پیدا کرنے اور حکمرانی کے تصور کو بدلنے کا وسیلہ بنے۔
لیکن اگر اس کمیٹی کو مفاد پرست عناصر ہائی جیک کر لیتے ہیں، اگر یہ محض "تحریک برائے تحریک” بن جائے، اگر یہ عوام کو ایک بار پھر صرف ہجوم سمجھ کر استعمال کرے، تو اس کا انجام بھی انہی تحاریک کی طرح ہوگا جن کا ذکر تاریخ میں صرف حاشیوں پر رہ جاتا ہے۔
اختتامیہ: فیصلہ عوام کے ہاتھ میں
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ایک امکان ہے —
یہ امکان ایک شعلہ بن کر اندھیروں کو جلا سکتا ہے یا صرف ایک چنگاری بن کر ہوا میں تحلیل ہو سکتا ہے۔
مستقبل کا تعین صرف قیادت نہیں، عوامی بیداری کرے گی۔
اگر عوام نے اپنی طاقت کو پہچان لیا، تو نہ صرف JACC کا مستقبل روشن ہوگا بلکہ ریاستی ڈھانچے کے مرکز میں بھی زلزلہ آ سکتا ہے۔
ورنہ… یہ سوالیہ نشان باقی رہے گا:
"کیا یہ سب محض ایک وقتی شور تھا؟”
آخر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کیڈرز اور قائدین سے کہتا ہوں کہ اگر آپ ” ماضی کے مزار ” نہیں بننا چاہتے بلکہ آج کے مینار بننا چاہتے ہیں تو ” شعور عصر” کی اس قندیل کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے وارڈز ، گاوں اور گھر گھر تک پہنچاننے کے لیے کمر باندھ لیں۔اگر آپ اس کو نچلی پرتوں تک پہنچاننے میں کامیاب ہوگئے تو اس کمیٹی کا مستقبل تابناک ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو ماضی کے میں ہوتا آیا ہے۔ اس کمیٹی کا مستقبل آپ کے عزم، ہمت اور کارکردگی کے نیچے مستور ہے۔
Share this content:


