وہ شخص کتابوں جیسا تھا ۔۔۔۔ اسد نواز


ایک سال ہاں ایک سال ہو گیا ہے ایک ایسے شخص کو غائب ہوئے جس جیسا کوئی ایک بھی نہیں اس دنیا میں ، یقین نہیں آرہا کہ وہ کبھی لوٹ کر نہیں آے گا بلکہ خیال کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ یہی کہیں ہے اور ابھی پیچھے آکر کندھے پر ہاتھ رکھے گا۔

ہر روز لوگ مرتے ہیں ، جاننے والے بھی ، انجان بھی ، دوست اور رشتے دار بھی وقت غم اور دکھ کی کیفیت ہوتی ہے لیکن ایک ایسا شخص جس کی خوبیوں والا کوئی بھی باقی نہ ہو اس شخص کو بھلا کوئ کیسے بھول سکتا ہے۔

آفتاب احمد اس رجعتی اور تنگ نظر معاشرے میں امید اور روشنی کا ایک چراغ تھا جو اپنی شعوری عمر کے آغاز سے لیکر انجام تک مسلسل جلتا رہا ، جس نے اس لالچ ، ہرس و ہوس کے معاشرے میں کبھی اپنی زات کے بارے میں نہیں سوچا ، اسکے کئی منصوبے ہوتے تھے لیکن کبھی اس میں زات کا لالچ نہیں پایا گیا۔

اس نے اپنی زندگی عملی طور پر انقلاب اور اس دھرتی کے غلام انسانوں کے لئے وقف کر رکھی تھی ، وہ اس قبائلی اور فرسودہ معاشرے میں واحد انسان تھا جو تعصب اور نفرت کو مکمل طور پر ترک کر کے انسانیت کے اعلیٰ درجے پر پہنچ چکا تھا ، جس نے قبائلی فرسودہ سوچ کو کبھی قریب بھی نہیں آنے دیا اس نے اس فرسودگی کے خاتمے کو اپنی زندگی کا مقصد اور نظریہ بنا لیا تھا۔

دراصل وہ سمجھ گیا تھا کہ ہماری اجتماعی غلامی کی اصل جڑ کہاں ہے ، وہ ہمیشہ فرسودہ قبائلی روایات کے خلاف لکھتا اور بولتا ، جہالت کے خلاف کبھی بھی اس نے کبھی بھی کمپرومائز نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ جہالت کی پروردہ اور جہالت کی نمائندہ قوتوں نے جب بھی موقع ملا اس عظیم انقلابی پر زبانی و تحریری سازشی حملے کئے ،لیکن کوئی بھی حربہ اس میرے اس انقلابی دوست کے عزم کو متزلزل نہ کر سکا۔

اس نے لکھا تو کھل کر لکھا ، بولا تو کھل کر بولا ، اپنے نظریات کو نہ کبھی چھپایا نہ کبھی پیچھے ہٹا ، کبھی علاقیت ، کبھی قبیلائیت اور کبھی ملائیت کی حقیقت کو بیچ چوراہے برہنہ کیا ، کبھی نام نہاد عزت اور غیرت کے جھوٹے ٹھیکداروں اور اندھیرے کے پجاری معززین کی حقیقت کو آشکار کیا ، یہی وہ اس کا انوکھا اور وکھرا انداز تھا جس نے اسے اس سماج کے باقی انسانوں سے الگ اور منفرد مقام پر کھڑا کیا۔

آج جب وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ، لیکن اس کی سوچ فکر اور روح یہاں موجود ہے اسکے ساتھ کسی دوستی ، رشتے ناطے اور کسی بھی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ آفتاب احمد کی سوچ اور فکر کو اپنایا جائے ، اسکی زندگی کے ادھورے مشن کی تکمیل کیلئے جدوجہد کو جاری رکھا جائے اور اپنی اپنی زات کی حد تک آفتاب جیسا بننے کی کوشش کیجاے۔

میرا دعویٰ اور یقین ہے کہ جس دن آفتاب جیسے ایک ہزار انسان تیار ہوگئے وہ ہماری غلامی کا آخری دن ہو گا ، غلامی ، جبر ، جہالت اور فرسودگی کے خلاف عظیم انقلابی کامریڈ آفتاب کی جدوجہد ، جرات اور استقامت کوئی سرخ سلام ، میرے دوست تمہیں اس موقع پر پیش کرنے کیلئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔

کامریڈ آفتاب امر رہے!

٭٭٭

Share this content: