پاکستانی جموں کشمیر میں دہشتگرد تنظیم "لشکر طیبہ”کے کمانڈر کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا

راولاکوٹ ( کاشگل نیوز رپورٹ)

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کے ٹاؤن کھائی گلہ کے نواحی گاؤں کوئیاں میں بدھ کے روز ایک دہشتگرد تنظیم ” لشکر طیبہ” کے کمانڈر اور ان کے ساتھیوں کوشدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔

مقامی ذرائع کے مطابق کمانڈر اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ موقع سے بھاگ گئے۔

اہل علاقہ نے آئندہ چند روز میں عوامی جرگہ منعقد کر کے مسلح تنظیموں کی ریکروٹمنٹ اور سرگرمیوں کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی کہ گاؤں کوئیاں سے تعلق رکھنے والا نوجوان حبیب طاہر عرف چھوٹو بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔

حبیب طاہر کی غائبانہ نماز جنازہ بدھ کے روز اس کے آبائی گاؤں میں منعقد کی گئی تھی۔ تاہم حبیب طاہر کی خبر عام ہونے کے بعد علاقے میں مسلح تنظیموں کے خلاف ایک رد عمل موجود تھا۔ اسی وجہ سے حبیب طاہر کے ورثاء کی جانب سے اس مسلح تنظیم کے لوگوں کو حبیب طاہر کی نماز جنازہ میں شرکت سے منع کر رکھا تھا۔

مقامی آبادی کے مطابق حبیب طاہر کو دہشتگرد تنظیم جماعت الدعوۃ ( لشکر طیبہ) نے ریکروٹ کیا اور تربیت دے کر سیز فائر لائن کی دوسری جانب بھیج دیا ، جہاں وہ بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

ورثاء کی جانب سے منع کرنے کے باوجود جماعت الدعوۃ کے خفیہ مقامی کمانڈر اور اسی تنظیم کی نئے نام سے قائم سیاسی جماعت "یونائیٹڈ موومنٹ "کے اعلانیہ رہنما رضوان حنیف اپنے تین بھائیوں اور ایک بھتیجے کے ہمراہ نماز جنازہ میں شریک ہونے کے بعد حبیب طاہر کے گھر بھی چلے گئے۔

اہل علاقہ کے مطابق رضوان حنیف کے ساتھ آنے والے افراد میں سے دو مسلح محافظ تھے۔

علاقائی ذرائع کا کہناہے کہ حبیب طاہر کے ورثاء نے جب رضوان حنیف سے سوالات کرنا شروع کیے تو رضوان حنیف کے بھتیجے نے بندوق کے زور پر دھمکانے کی کوشش کی۔ اس پر وہاں موجود حبیب طاہر کے ورثاء رضوان حنیف کے مسلح ساتھیوں پر حملہ آور ہو گئے۔

یاد رہے کہ رضوان حنیف نے اپنے مسلح محافظ کے طور پر اپنے بھتیجے اور بھائی کو ہی مقرر کر رکھا ہے۔ اس طرح گارڈز اور ڈرائیور کی تنخواہیں بھی گھر میں ہی کام آتی ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق کمانڈر رضوان حنیف اور ان کے مسلح ساتھی باہر نکلے تو حبیب طاہر کے دوستوں نے بھی انہیں برا بھلا کہا اور بھاگتے ہوئے ان کا کافی دور تک پیچھا بھی کیا۔

کھائی گلہ میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب کمیونٹی نے کالعدم عسکری تنظیموں کی ان سرگرمیوں کے خلاف رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے قبل اپریل میں گاؤں برمنگ کے لوگوں نے اسی طرح ایک نوجوان کے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد غائبانہ آخری رسومات اور کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا۔

ریاست کی جانب سے بھی طویل عرصے کے بعد پالیسی میں ایک تبدیلی نظر آرہی ہے۔ رواں ماہ 26 جولائی کو ضلع باغ کی تحصیل ہاڑی گہل کے علاقے کھڑا بٹ کے مقام پر کالعدم دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے ایک کانفرنس کا اعلان کر رکھا تھا، جس کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ باغ کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر جا کر روک دیا۔

گزشتہ دو سال کے دوران کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں کی سرکاری سرپرستی میں ہونے والے سرگرمیوں میں ایک تیزی آئی تھی۔ تاہم پاک بھارت جنگی تنازعے کے بعد اس صورتحال میں یکسر لیکن غیر محسوس انداز میں ایک تبدیلی نظر آرہی ہے۔

عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی طور پر کمی آئی ہے اور جو کوئی سرگرمی اگر ہو بھی رہی ہو تو اس کی تصویروں اور ویڈیوز کو پبلک ہونے سے ہر ممکن طور پر روکا جا رہا ہے۔

حتمی طور پر اس خطے کے نوجوانوں کو اس عفریت سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عسکریت پسندی پر ابھارنے، عسکری تربیت دینے اور عسکریت پسندی کے لیے ریکروٹ کرنے والی تنظیموں، نرسریوں اور مراکز پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور نوجوانوں کو اس سامراجی جنگ کا ایندھن بنانے کی پالیسی کو مکمل ترک کیا جائے۔

واضع رہے کہ بھارت پاکستان کو دہشتگردوں کی نرسری قراردے چکا ہے ۔اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج جہاد کے نام لوگوں تربیت دیکر انہیں بطور دہشت گرد بھارت و دیگر ممالک میں تقریبی کارروائیوں کی ذمہ داریاں سونپ دیتی ہے جسے وہ عملدرآمد کراتے ہیں۔

پاکستانی جموں کشمیر میں متعددایسے شواہدسامنے آئے ہیں کہ مدرسوں کی آڑ میں دہشتگردی کے کیمپ چلائے جارہے ہیں جس پر علاقہ مکین احتجاج بھی کر چکے ہیں لیکن پاکستانی فوج کی زیر نگرانی اب یہ عمل مکمل طور پر وسیع اور منظم بنیا دوں پر جاری وساری ہیں۔

Share this content: