افسانہ : "کہانیوں کے اُس پار” ۔۔۔۔ رضوان اشرف

سردیوں کی دھند آہستہ آہستہ وادی میں اتر رہی تھی۔ مظفرآباد کی گلیوں میں آج غیرمعمولی خاموشی تھی۔ گلی کے نکڑ پر ایک چائے والا ریڈیو پر خبریں سن رہا تھا۔ "آج پھر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں دو شہری شہید، چار زخمی۔” ۔۔۔۔۔
آواز ختم ہوئی تو چائے والا ہنسا، "یہی روز کی کہانی ہے، اب تو چائے کی پیالی کے ساتھ لازمی ہو گئی ہے۔”۔۔۔۔

اسی چائے خانے میں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔ اس کی سفید داڑھی، جھریوں سے بھرا چہرہ اور آنکھوں میں ایسا درد تھا جیسے وقت کی کوٹھڑیوں میں قید ہو۔ لوگ اسے "بابا نُورا” کہتے تھے، مگر وہ کون تھا؟ اس کی اصل پہچان اب بھی ایک راز تھی۔

کسی نے کبھی نہ پوچھا کہ وہ 1947 میں کیا کرتا تھا، کہاں تھا جب پاکستانی قبائلی لشکر سرینگر کی جانب بڑھا، اور کیسے وہ ایک گمنام راوی کی طرح ان سب کا شاہد بن گیا۔

بابا نُورا نے چائے کی چسکی لی اور سامنے بیٹھے نوجوان کو دیکھا جو حب الوطنی کے جذبے سے لبریز ہو کر کہہ رہا تھا،
"بابا، ہمیں جہاد کرنا ہے، شہادت پانی ہے، کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔”

بابا نے آہ بھری اور کہا:
"تمہیں کہانی سنائی گئی ہے بیٹے اور کہانی حقیقت نہیں ہوتی۔”

نوجوان چونک گیا، کیا مطلب؟

"بیٹے! جب میں تمہاری عمر کا تھا تو مجھے بھی یہی کہا گیا تھا۔ ہم نے بندوق اٹھائی، پہاڑوں کا رخ کیا، دشمن کو مارا، دوست کو کھویا، اور آخر میں خود کو بھی بھول گئے۔ مگر جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ دشمن کوئی اور تھا — وہ جو ہمارے ہاتھ میں بندوق تھما کر خود سودے بازی کر رہا تھا۔ وہ جو ہماری لاشیں گن کر مختلف فورم پر قراردادیں پیش کر رہا تھا۔ اور ہمیں مروا کر لُٹوا کر ہماری مظلومیت بلکہ ہماری لُٹی ہوئی عزت تک بیچ کر نہ صرف پیسے کما رہا تھا بلکہ اپنی خارجہ پالیسی مرتب کر رہا تھا۔

"تو کیا جہاد غلط تھا؟” نوجوان نے سوال کیا۔

بابا نے دھیرے سے سر ہلایا

جہاد کا مطلب صرف بندوق نہیں ہوتا، سچ کے لیے لڑنا بھی جہاد ہے۔ جہاد کا نصاب قرآن کریم بہت وضاحت سے بیان کر رہا ہے۔ وہ جہاد ہوتا تو پھر کسی کے اشارے پر بند نہ ہو جاتا۔ ساری جہادی تنظیمیں دہشتگرد نہ قرار پاتیں۔ لاکھوں لوگوں کو شہید کروا کر ہاتھ نہ اٹھا لیے جاتے۔۔۔۔۔
اور بیٹے! سچ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ایک کھیل کھیلا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے ریاست جموں کشمیر کو صرف ایک شطرنج کی بساط سمجھا۔ ایک نے مذہب کا نعرہ لگایا، دوسرے نے قوم پرستی کا، اور ہم دونوں کے بیچ پس گئے۔ دراصل دونوں نے ایک ہی نیت سے نعرہ لگایا اور وہ نیت ہے ریاست پر قبضے کی۔۔۔ ریاست کے پانیوں، اسکے وسائل پر قبضے کی۔۔۔۔

نوجوان خاموش ہو گیا۔ پہلی بار اُس نے وہ سنا جو نصاب، مسجد یا میڈیا نے کبھی نہ بتایا تھا۔

ریاست کے اس مسئلے کی اصل حقیقت کیا ہے بابا؟ مہاراجہ تو انتہائ ظالم تھا اُس سے آزادی لینا تو فرض ہی تھی پھر یہ تقسیم کیوں ؟

مہاراجہ ایک بادشاہ تھا اور بادشاہ کیسے ظالم تھے تاریخ اٹھا کر دیکھو تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، آپ بادشاہوں کو جمہوری رویوں میں لپٹ کر کیوں سوچنا چاہتے ہیں ؟ بابا نے گلہ صاف کرتے ہوئے تیز نظروں سے نوجوان کو دیکھا۔

کیا آج کے حکمران مہاراجہ سے زیادہ ظالم نہیں ہیں ؟ مہاراجہ کے دور میں کتنے لوگ لاپتہ ہوئے؟ کتنے لوگوں پر جھوٹی ایف آرز کٹیں ؟ کتنے لوگ مذہب کے نام پر شہید کروائے گئے؟ مہاراجہ کے دور میں کتنے ریاستی ادارے نااہل افراد کے ہاتھوں تباہ و برباد کروائے گئے؟ ریاستی ترقی کے نام پر کتنے ٹھیکے اپنوں میں بانٹ کر کمیشن کمایا گیا؟ مہاراجہ سے تو یہ حکمران کہیں زیادہ ظالم ہیں میرے معصوم بیٹے۔ کیا تم نے پچھلے دنوں سُنا نہیں کہ نوکریوں کا جھانسہ دے کر مظفرآباد میں ایک سرکاری گروہ ریاست کی بیٹیوں کی عزتیں لوٹتا رہا؟ تو ظالم مہاراجہ تھا کہ یہ لوگ ہیں؟

نوجوان حیرت میں ڈوبتا چلا گیا چونکہ ایسی باتیں وہ زندگی میں پہلی بار سُن رہا تھا۔

مہاراجہ کی محبت اور نفرت دونوں کم ظرف ذہنوں کا ڈھونگ ہے۔ مہاراجہ ایک ریاست کا بادشاہ تھا، اپنے عہد میں اس نے کیا غلط اور کیا صحیح کیا اُس عہد کے اعتبار سے اس پر بات ہونی چاہیے ، مہاراجہ کے غلط یا صحیح کا تعین تاریخ طے کر رہی ہے ، بابا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

مگر یہاں مہاراجہ کو نہایت عادل اور پاکباز مسلمان خلیفہ کے تصور سے تقابلہ کروا کر اُس سے نفرت ہی سکھائی گئی اور لوگ یہ بھول گئے کہ جس شخص کی بات ہو رہی وہ آج سے اسی سال پہلے کی بات ہے اور وہ ایک ریاست کا بادشاہ تھا۔۔۔۔۔

اُس عہد کے باقی بادشاہوں کے حالات کسی نے دیکھے؟

اُس وقت اور کون کون سے بادشاہ تھے بابا، نوجوان نے تاریخ کی دلچسپی میں کھوئے ہوئے سوال کیا ؟

اُس وقت برطانیہ میں جارج شیشم بادشاہ تھا جسکی حکومت برصغیر پر بھی تھی۔ ریاست بھوپال میں نواب حمید اللہ تھا، جونا گڑھ میں نواب محمد مہابت خانجی، ٹراونکور میں مہاراجہ چترا، حیدرآباد میں نواب میر عثمان علی ۔۔۔۔۔

پھر پڑوس کے افغانستان میں بادشاہ ظاہر شاہ، نیپال میں راجہ تری بھون ، ایران میں شاہ محمد رضا پہلوی بادشاہ تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کا بادشاہ ہونا کوئ اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ اب ان سارے بادشاہوں کے ظلم و ستم کسی نے دیکھے؟ کیا یہ سارے لوگ عادل اور رعایا کے خادم تھے ؟ بادشاہوں اور منتخب جمہوری حکمرانوں میں فرق نہیں ہوتا؟ بابا نے سمجھاتے ہوئے چند سوالات پوچھے ۔

دیکھو نوجوان! شخصی حکومت کی کسی بھی قیمت حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن اس عہد کے اعتبار سے ان حالات کے اعتبار سے جس جس حکمران نے بھی جو غلط یا صحیح کام کیے وہ تاریخ میں اسکا اچھا یا بُرا کردار ہیں۔ بابا نے اپنی بات جاری رکھی۔

سو اختلاف اپنی جگہ لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ جو جموں کا حکمران تھا نے تاوانِ جنگ ادا کر کے انگریزوں سے کشمیر خریدا ۔۔۔ اس علاقے کو اپنی جائیداد بنانے کی بجائے اُس نے ایک قومی ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اُس سے پہلے کشمیر پنجاب دربار کا غلام تھا پھراُس سے بھی پہلے افغانیوں کے پنجہِ ظلم میں تھا۔

مہاراجہ ہری سنگھ ایک پڑھا لکھا آدمی تھا اس وقت کا بیرسٹر تھا۔ اُس نے اپنی ریاست جموں کشمیر میں تعلیمی اصلاحات کیں، عدل و انصاف کا اُس دور کے اعتبار سے بہتر نظام قائم رکھا، راستوں و پانی کا انتظام بہتر رکھا بلکہ مہاراجہ تو ریاست کے پانیوں کا پنجابی حکومت سے آبیانہ وصول کرتا تھا اور آج جو باشندہ ریاست قانون کی بحالی کی بابت آپ لوگ جان دینے پہ تیار ہو یہ قانون تو مہاراجہ کا ہی ہے۔۔۔۔

بابا پھر مہاراجہ نے ریاست کا الحاق بھارت سے کیوں کیا؟ نوجوان نے سوال داغا۔۔

کس نے کہا کہ مہاراجہ نے ہندوستان سے الحاق کیا ؟ دونوں ممالک جھوٹ موٹ پر اپنی عوام کو پال رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاراجہ ریاست جموں کشمیر کو آزاد اور خودمختار رکھنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے دونوں نئی پڑوسی ریاستوں پاک و ہند کے ساتھ "سٹینڈ سٹل” معائدات کیے جسے پاکستانی حکومت نے مان بھی لیا اور ہندوستانی حکومت نے وقت مانگا۔ یہ تو ریاست پر اُس معائدے کی خلف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حملے کے نتیجے میں حالات عجیب پیدا ہو گئے اورمہاراجہ ہندوستان سے مدد مانگنے پر مجبور ہوا اور ہندوستان کو بھی ریاست پر پاؤں جمانے کا موقع ملا۔ بعد میں ہندوستان نے مظالم ڈھانے کی ایک مکروہ اور بزدلانہ تاریخ رقم کی، بابا نے چائے کی خالی پیالی ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔

بیٹے! ریاست کی تقسیم کی ساری سازش میں برطانوی سامراج اور اُسکے مقامی گماشتے برابر کے شریک تھے۔ ورنہ سری نگر تک پہنچ کر پاکستانی قبائلی لشکر رُک کیوں جاتا، اور واپسی انخلاء کرواتی بھارتی فوج موجودہ ایل او سی تک کیوں رُک جاتی؟

بابا نُورا نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ دور پہاڑوں پر برف گر رہی تھی۔
"کہانیاں خوبصورت ہوتی ہیں بیٹے، مگر سچ کڑوا ہوتا ہے۔ ہمیں وہ سچ چاہیے جو ریاست کے قومی سوال کو زندہ کرے، نہ کہ وہ کہانیاں جو ہمارے شعور کو دفن کر دیں۔”۔۔۔۔

ریڈیو پر ایک نئی خبر چلنے لگی:
"آج پاکستانی وزیر خارجہ اور بھارتی ہم منصب کی ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کا امکان۔”۔۔۔

بابا نُورا ہنسا،
"یہی مفاہمت، جس کے لیے لاکھوں لوگ مٹی تلے دفن ہوئے۔ ہم لڑے، مرے، جلے، بٹے… اور وہ بیٹھے میز پر چائے پیتے رہے۔”۔۔۔

نوجوان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
"بابا، اب کیا کریں؟”

بابا نے نرمی سے جواب دیا،
"اب ہمیں کہانیوں سے نکل کر تاریخ لکھنی ہے، اپنی… سچ پر مبنی، بیداری سے بھری تاریخ ۔۔۔۔۔

دھند گہری ہو چکی تھی، مگر نوجوان کے ذہن میں ایک نئی روشنی جنم لے چکی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگرمہاراجہ ہری سنگھ مسلمان ہوتا تو آج نصاب میں اسے بہت اونچا مقام دے کر پڑھایا جا رہا ہوتا۔ اسے ریاستی تاریخ کے کردار واضح ہونا شروع ہوئے۔ نوجوان پر یہ راز کُھلا کہ یہ مسلم غیر مسلم کی بات نہیں ہے۔ نوجوان کو نیلم کا ماسٹر عزیز یاد آیا جسے قبائلی لشکر نے شہید کیا تھا ، اسے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بہت باجرأت باغی شیر پونچھ مولانہ عبداللہ کفل گڑھوی یاد آیا جسے صرف اس لیے تاریخ کےگم نام اندھیروں میں دھکیل دیا گیا کہ اُس نے پوری زندگی مہاراجہ سے بغاوت کرنے کے باوجود ریاست جموں کشمیر کو آزاد و خودمختار رکھنے کے مہاراجہ کے مؤقف کی حمایت کی۔

نوجوان یہ سوچنے لگا کہ تاریخی ارتقاء میں ہمیشہ آگے ہی بڑھتا جاتا ہے آج اگر ریاست آزاد ہوتی تو ہم واقعی بہت بہتر سماجی حالات میں ہوتے۔ وہ یہ سوچنے لگا کہ واقعی یہ مسلم غیر مسلم کی بات نہیں ، اگر ہوتی تو پاکستان میں ہندو، سکھ، عیسائی و دیگر اب بھی اُسی طرح پاکستانی ہیں جس طرح ایک مسلمان۔ بابا کی تلخ مگر حقائق پر مبنی باتیں اُس دھند کو چیر رہی تھیں جو ریاست جموں کشمیر پر پچھلی سات دہائیوں سے طاری تھی ۔ نوجوان کا ذہن مختلف حقائق بھانپتے ہوئے خود سے سوال کرنے لگا کہ کیسے جہاد کے نام پر چلائی گئی پراکسی وار، قومی سوال کی تدفین، اور سامراجی طاقتوں کی مفاہمتی تقسیم کو بے نقاب کرنا ہے۔ نوجوان نے خود سے کہا کہ اب وقت ہے کہ ہم سچ کا سامنا کریں اور اپنی تاریخ خود لکھیں۔

٭٭٭

Share this content: