راولاکوٹ ( کاشگل نیوز)
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میںہڑتال کرنے والے پولیس اہلکار وں کو اب ریاست کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
گزشتہ ماہ پولیس سپاہیوں نے تین روزہ کام چھوڑ ہڑتال اور احتجاجی دھرنے دیے تھے۔
پولیس سپاہیوں کے چارٹر آف ڈیمانڈ سے چند مطالبات منظور کر کے حکومت ہڑتال کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تاہم اب یہ پولیس سپاہی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں، تاکہ مستقبل میں احتجاج یا ہڑتال کا راستہ روکا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے ایک بار پھر پونچھ ہی پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے، کیونکہ شاید پولیس سپاہیوں کے احتجاج میں بھی پونچھ کا ہی کردار تھا۔ احتجاج کی صورت میں منظور ہونے والے الاؤنسز کی وجہ سے عام سپاہیوں کی تنخواہوں میں ماہانہ تین سے پانچ ہزار تک کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ افسران کو بارہ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ کا فائدہ میسر آیا ہے۔ تاہم وہی افسران جنہیں اس ہڑتال سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے، اب پولیس سپاہیوں کو حکومتی انتقام کا نشانہ بنانے میں سرگرم ہیں۔
انتقامی کارروائیوں میں خواتین سپاہیوں کے آؤٹ اسٹیشن تبادلے اور صبح 8 بجے اور رات 8 بجے متعلقہ تھانوں میں حاضری لگانے کی پابندی جیسے احکامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سپاہیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کا سوشل میڈیا گروپ، یا مشترکہ رابطے کا کوئی فورم نہیں بنائیں گے۔ بالخصوص واٹس ایپ گروپ بنانے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور پہلے سے بنے ہوئے گروپ ختم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
خواتین سپاہیوں کو دور دراز کے تھانوں اور چوکیوں میں تبادلے کر کے بھیجا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خاندانوں سے الگ ہو چکی ہیں۔ کئی سپاہیوں کے چھوٹے بچے ہیں، جن کی دیکھ بھال کے لیے اب ان کے شوہروں کو گھروں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ عدم حاضری کی صورت سپاہیوں کو نوکری سے ہاتھ دھونے کا خطرہ ہے۔ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ مستقبل میں یہ سپاہی احتجاج سے قبل 100 بار سوچیں۔ پولیس کے اس احتجاج میں سب سے متحرک اور جاندار کردار ادا کرنے والی خواتین سپاہی اب سب سے بھیانک انتقام کا نشانہ بن چکی ہیں۔
پولیس سپاہیوں سے یہ اضافی ماہانہ تین سے پانچ ہزار وصول کرنے کے لیے ناکوں، گشت وغیرہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اب ان تین یا پانچ ہزار روپے کے الاؤنس بڑھانے کی سزا جو سپاہیوں کو مل رہی ہے، اس کا خمیازہ عام شہری بھگتیں گے، جنہیں ناکوں میں ذلیل کیا جائے گا اور محکمہ کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کو یہ سپاہی عام عوام اور بالخصوص نوجوانوں پر نکالیں گے۔ کسی حد تک یہ سلسلہ رات کے اوقات میں شروع بھی ہو چکا ہے۔
رات بھر گشت پر رہنے والے سپاہیوں کو صبح 8 بجے متعلقہ تھانے میں حاضری دینے کے بعد آرام کی اجازت ہوگی، جس کے لیے اس کے پاس کوئی ٹرانسپورٹ سہولت بھی میسر نہیں ہوگی۔ سپاہی جس بھی علاقے میں ہوا اسے صبح 8 بجے تھانہ رپورٹ کرنی ہوگی۔ سپاہیوں کی چھٹیاں بھی بند کی گئی ہیں، شاباشی وغیرہ بھی بند کی گئی ہے اور اس کے علاوہ ڈیوٹی اوقات کے بعد پولیس سپاہیوں کے گھر جانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اب انہیں تھانوں اور چوکیوں میں ہی رہائش اختیار کرنا ہوگی۔
اس اکھاڑ پچھاڑ اور پھرتیوں کا مقصد پولیس سپاہیوں کو یہ ادراک کروانا ہے کہ ان کے احتجاج اور ہڑتال پر پابندی ہے۔ وہ حقوق کی مانگ نہیں کر سکتے، بلکہ ان کا کام حقوق مانگنے والوں پر ڈنڈے برسانا، انہیں منتشر کرنا اور گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنا کر ریاست کے تابع رکھنا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں یہ پہلا موقع ضرور ہے کہ ریگولر پولیس فورس نے اس طرح احتجاج کیا ہے، تاہم پاکستان میں اس کی ماضی میں بھی مثالیں موجود ہیں۔
برصغیر میں پولیس کا نظام برطانوی سامراج کے 1861 کے پولیس ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ برطانوی سامراج کے جانے کے بعد بھی پولیس کا وہی نظام یہاں وقت کے ساتھ کی گئی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ یہاں رائج رہا ہے۔
برطانوی پولیس کو نیم فوجی طرزپر تعمیر کیا گیا تھا۔ مزدور یونین کی طرز پر پولیس سپاہیوں کو یونین کا حق تو نہیں دیا گیا تھا، تاہم ویلفیئر ایسوسی ایشنز کی طرز پر پولیس کی تنظیموں کا حق موجود تھا، جو الاؤنسز اور تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے مطالبات پیش کرنے اور حکام سے مذاکرات کرنے کا حق رکھتی تھیں۔ یہ تنظیمیں جمہوری طریقے سے کام کیا کرتی تھیں۔
پاکستان میں بھی یہ پولیس ویلفیئر ایسوسی ایشنز غالباً 1972 تک قائم رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں مزدور دشمن اقدامات کے خلاف کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ابھرنے والی مزدور تحریک کے ساتھ ساتھ پولیس سپاہیوں کا احتجاج بھی ایک انوکھی مثال تھی، جس کا پہلے اس طرح تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ پولیس سپاہیوں نے فروری 1972 میں پنجاب کے کچھ علاقوں میں احتجاج کیا، اسی طرح غالباً سندھ کے کچھ علاقوں میں بھی پولیس سپاہیوں نے احتجاج اور ہڑتالیں کیں۔
بھٹو حکومت نے مزدور تحریک کو کچلنے کے لیے پولیس کا بھیانک استعمال کیا اور پولیس نے احتجاج کرتے مزدوروں پر کراچی میں فائرنگ کی اور کئی مزدوروں کو قتل اور زخمی کیا گیا۔ تاہم مزدور تحریک کو کچلنے کے لیے استعمال ہونے والے ان پولیس سپاہیوں نے جب خود حقوق مانگنے کی کوشش کی تو انہیں حقوق دینے کی بجائے ان کے پاس پہلے سے موجود حقوق کو بھی چھین لیا گیا۔
پولیس سپاہیوں کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپاہیوں کی ویلفیئر ایسوسی ایشنوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ پولیس رولز اور سول سرونٹس ایکٹ میں ترامیم کرتے ہوئے بھٹو حکومت نے ڈسپلن فورسز کے لیے یونین سازی، ہڑتال یا اجتماعی احتجاج کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ پابندی آج تک برقرار ہے۔ پولیس سپاہی اندرونی طور پر پولیس ویلفیئر بورڈ یا پولیس دربار وغیرہ میں اپنی شکایات نوٹ کروا سکتے ہیں، لیکن کوئی تنظیم سازی کر کے اپنے مطالبات آزادانہ طور پر حکومت کے سامنے پیش نہیں کر سکتے۔
حالیہ پولیس احتجاج کے بعد ہونے والی انتقامی کارروائیاں، جموں کشمیر میں گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے چلنے والی عوامی حقوق تحریک میں سرگرم کارکنوں اور مجموعی طور پر معاشرے کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیاں یہ سبق بھی دیتی ہیں کہ جب تک تحریکیں پھیلتی نہیں ہیں اور حتمی مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے نظام کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرتی ہیں، یا پھر کم از کم ایسی اصلاحات پر منتج نہیں ہوتیں کہ ان تحریکوں کی ایک سیاسی تعبیر ترتیب دی جا سکے، تو پھر ریاست کا انتقام سیاسی شعور کو انتہائی پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ تحریکوں سے قبل اور تحریکوں کے دوران کی حاصلات کو بھی چھین کر سیاسی، جمہوری اور شہری آزادیوں کو چھیننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے دوبارہ تحریکوں کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
Share this content:


