ٹیوٹا میں 6 جریدہ ملازمتوں پر وزیر کے قریبی افراد کو خلاف ضابطہ تعینات کرنے کا الزام

مظفرآباد ( کاشگل نیوز)

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کے واحد مرکز ٹیوٹا (ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی) کی وزارت حلقہ نمبردو ہجیرہ، تراڑکھل سے منتخب ہونے والے ممبر اسمبلی عامر الطاف کے پاس ہے۔ گزشتہ سال جولائی سے رواں سال اپریل تک کے طویل پراسیس کے بعد ٹیوٹا میں 6جریدہ آسامیوں، یعنی چار لیکچررز، ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ایک اکاؤنٹنٹ، پر تقرریوں عمل مکمل کیا گیا۔

تاہم تقرریوں کے اس عمل کے دوران ہر مرحلہ پر بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کیے گئے، عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کیا، جسے خاطر میں نہ لایا گیا۔ اب یہ تفصیلات سامنے آرہی ہیں کہ جن افراد کے ان آسامیوں پر انتخاب کے لیے یہ اتنا طویل پراسیس چلایا گیا، وہ سارے وزیر حکومت کے قریبی ہیں اور سوائے اس محکمے کے ٹیسٹ انٹرویوز وہ ہر ٹیسٹ انٹرویوز میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ بالخصوص زیادہ تر امیدواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ این ٹی ایس میں یا تو کامیاب ہی نہیں ہو سکے، یا پھر باقی امیدواروں سے این ٹی ایس میں ان کی کارکردگی انتہائی خراب رہی ہے۔

تقرریوں کے عمل کے لیے ٹیسٹ کے نتائج دیے بغیر من پسند لوگوں کو انٹرویو کال لیٹر جاری کیے جانے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اس عمل کے خلاف حکم امتناعی بھی حاصل کیا گیا، لیکن اس سب کے باوجود انٹرویو ہوئے اور اس دوران امیدواروں کی تعداد کو کم زیادہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔یہاں تک کہ میرٹ لسٹیں آویزاں کر دی گئیں۔

اب الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اکاؤنٹنٹ کی آسامی پر سیکڑوں امیدواروں سے مقابلہ کر کے میرٹ لسٹ ٹاپ کرنے والے امیدوار نے این ٹی ایس میں 135امیدواروں میں سے 135واں نمبر حاصل کیا تھا۔ ان کی قابلیت محض یہ ہے کہ وہ وزیر ٹیوٹا کے ووٹر اور سپورٹر ہیں۔ اسی طرح لیکچرر ریاضی کی دو آسامیوں پر میرٹ لسٹ ٹاپ کرنے والی دونوں خواتین بھی حیرت انگیز طور پر وزیر ٹیوٹا کے قریبی لوگوں کی رشتہ دار ہیں۔ ایک خاتون مبینہ طور پر وزیر حکومت کے اسسٹنٹ لیگل آفیسر کی اہلیہ ہیں، جبکہ دوسری خاتون وزیر حکومت کے حق میں دستبردار ہونے والے امیدوار اسمبلی کی اہلیہ ہیں۔ ایک خاتون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے این ٹی ایس میں محض58نمبر لیے اور دوسری این ٹی ایس میں ناکام ہو گئی تھیں۔

اسی طرح کیمسٹری کی لیکچرر بھی ایسی ہی ایک خاتون میرٹ پر ٹاپ کر کے تعینات ہوئیں، جن کے والد مسلم لیگ ن کے یونین کونسل کے صدر ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی آسامی کے لیے بھی میرٹ لسٹ ٹاپ کرنے والے امیدوار مبینہ طو رپر وزیر حکومت کے قریبی ہیں۔ یعنی ٹیوٹا کی ان آسامیوں پر حلقہ دو ہجیرہ تراڑکھل کے علاوہ باقی ڈویژن بھر سے کوئی بھی شخص اس اہل تھا ہی نہیں کہ وہ ایک بھی آسامی پر میرٹ لسٹ ٹاپ کر سکتا۔ یہ سارا اعزاز ایک حلقے اور ایک پارٹی کے لوگوں کو ہی حاصل ہو سکا ہے۔

میرٹ وغیرہ کی حالت پسماندہ خطوں میں ایسی ہی ہوتی ہے۔ لوگوں کو میرٹ کے پیچھے لگایا جاتا ہے اور شفافیت کے نام پر مختلف محکمے اور ادارے قائم کر کے نئی کمائی کی دکانیں کھول دی جاتی ہیں۔ حتمی طور پر میرٹ طاقتور کی جیب میں ہی ہوتا ہے۔ ریاست ہر شہری کو اسکی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق روزگار دینے کی آئینی طور پر پابند ہے، تاہم ایک ایک آسامی پر ہزاروں امیدواروں کا سامنے آنا اور پھر ان میں سے کسی ایک سفارشی کا بھرتی ہونا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ریاستی حکمران اشرافیہ(جو خود نوآبادیاتی اور طفیلی کردار کی حامل ہے) کے کسی ایک نمائندے کے کاسہ لیس بنیں، ان کے لیے انتخابی مہم چلائیں اور ان کے در پر حاضریاں دیتے رہیں، تاکہ ان کے قریبی افراد میں ان کا شمار ہو سکے اور یوں انہیں روزگار میں کوئی حصہ مل سکے۔ یہ طریقہ کار بنیادی طور پر لوگوں کو بھکاری، مطیع، کند ذہن بنانے اور مفلوج ذہنیت کو پروان چڑھانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ یوں اس نوآبادیاتی ڈھانچے کے خلاف لوگ اپنے حق کی آواز اٹھانے کی بجائے انفرادی دوڑ میں حکمران اشرافیہ کے اِن جاہل، نودولتیے اور ان پڑھ نمائندوں کے دم چھلے بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جدید، سائنسی اور مفت تعلیم سب کے لیے، روزگار سب کے لیے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے نعروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے اور اس نظام کے ان حاشیہ برداروں کو دھتکارتے ہوئے بااختیار عوامی اقتدار کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، تاکہ بیش بہا قدرتی وسائل اور انسانی محنت کا درست اور منصفانہ استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو اجتماعی بنیادوں پر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

Share this content: