یہی تو پرانے کی موت ہے ۔۔۔ الیاس کشمیری

جب کوئی نظریہ، کوئی نعرہ پرانا ہو جاتا ہے، متروک ہو جاتا ہے، اس کی موت یقینی ہو جاتی ہے، اس کی جگہ نیا نظریہ، نیا نعرہ لے لیتا ہے جو ابھر رہا ہوتا ہے، جاندار ہوتا ہے پیش رفت کر رہا ہوتا ہے۔

پرانے کا خاتمہ اور نئے کا جنم ایک جدلیاتی اصول ہے جو کائنات کی ہر شئے میں کارفرماں ہے۔

الحاق پاکستان کا نعرہ بھی 76 سالوں میں ایک ایسے دور سے گزرنے کے بعد جو دور اس نعرئے کی آب و تاب کا دور تھا، اب پرانا بوسیدہ اور متروک ہو چکا ہے اور قریب المرگ ہے۔

اس بوسیدہ اور متروک نعرئے کے تضاد میں اول دن سے خود مختار کشمیر کا نعرہ بلند رہا ہے ، جو وقت گزرنے کیساتھ ارتقاء کرتے ہوئے خود مختار جموں کشمیر کا نعرہ بن چکا ہے۔

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ نعرہ عوام میں جڑیں پکڑتے ہوئے مضبوط ہوا اور عوام کی جاندار آواز بن گیا۔

الحاق نواز قوتوں کو پاکستان کے جشن آزادی کے دن لوگوں کو جمع کرنے کے لیے کھیل کا میدان سجانا پڑھتا ہے، ورنہ سرکاری ملازمین اور سکولوں کے بچوں کو ملا کر بھی سو لوگ جمع نہیں ہو پاتے۔

گزشتہ تین سالوں میں مختلف پروگرامات جو کھیل کے میدان سجا کر جشن آزادی بنانے کے لیے سجائے گئے ان میں جب الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کیا گیا تو عوام نے شدید رد عمل دیا اور خود مختار جموں کشمیر کے حق میں اور قبضہ گیریت کے خلاف نعرئے بلند کیے، کوٹلی، مظفر آباد اور پھر گزشتہ سال باغ میں ایسا ہوا۔

اس کے علاوہ بھی مختلف موقوں پر بالخصوص 5 فروری یوم یکجہتی کے موقع پر سکولوں کے بچوں نے آزادی اور خود مختار جموں کشمیر کے حق میں نعرئے بلند کیے۔

13 اگست 2025 راولاکوٹ میں والی بال کا میچ جو پونچھ اور پلندری کے درمیان تھا یہ دونوں علاقے والی بال کے کھیل میں اپنی مثال آپ ہیں لوگوں کو اس کھیل سے لگاو ہے، اسی لگاو میں عوام کی بڑی تعداد میچ دیکھنے کے لیے موجود تھی، جب اسٹیج سے الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام نے خود مختار جموں کشمیر اور آزادی کے حق میں نعرئے بلند کرنا شروع کر دیے پھرکیا تھا نعرہ الحاق پاکستان کی متروکیت اور بوسیدگی ذیادہ واضح ہو کر سامنے آئی۔

قبضہ گیر اور اس کے حاشیہ بردار اور گماشتہ حکمران نعرہ الحاق پاکستان کی کمزور اور متروک حالت پر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہے ہیں جن میں وہ مکمل نا کام ہیں۔

جب پرانے کا خاتمہ اور نئے کا جنم مادی بنیادیں حاصل کر لیتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت پرانے کے خاتمے اور نئے کے جنم کو روک نہیں سکتی۔

نعرہ الحاق پاکستان کی جدلیاتی نفی ہو رہی ہے جسے کسی مکینکلی طریقے سے ذیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ نہ ہی کھیل کے میدان سجا کر، سکولوں کے بچوں کو جبری طور پر الحاق نواز پروگراموں میں شامل کر کہ اس نعرئے کو موت سے بچایا جا سکتا ہے۔

محکومی اور قبضہ گیریت کو اب لوگ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اس کے خاتمے تک اس کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہیں گیں، کیونکہ عوامی شعور بلند ہو گیا ہے۔

٭٭٭

Share this content: