راولاکوٹ ( کاشگل نیوز)
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں خان اشرف خان سپورٹس کمپلیکس میں 13اور14اگست کی درمیانی شب پاکستان کے یوم آزادی کے سلسلے میں سرکاری طور پر منعقدہ میلے کے دوران ہونے والی بدنظمی، نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کے بعد اس وقت تک 26 سے زائد نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کی تعداد 30 سے 32 ہے۔ بعض کو ویڈیوز میں ویریفائی کرنے کے بعد رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ گرفتار نوجوانوں کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہیں، اور ان کا کسی سیاسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
راولاکوٹ پولیس تھانہ میں جانے والے ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ زیادہ تر گرفتار ہونے والے نوجوانوں میں وہ شامل ہیں، جو سنوکر وغیرہ کھیلنے کے سلسلے میں شہر میں موجود تھے، تاہم کچھ نوجوانوں کو سٹیڈیم کے اندریا قریب سے ہی گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک تاجر بھی شامل ہے، جسے گاڑی سے اتار کر گرفتار کیا گیا۔ گرفتار نوجوانوں پر رات گئے تشدد کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ذرائع کے مطابق ویڈیوز کا جائزہ لے کر مزید لوگوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس افسران سے ہی معلومات لینے والے کچھ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ 30 معلوم اور درجنوں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جسے ابھی تک پبلک نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم پولیس تھانہ سے اس بابت کوئی بھی آفیشل معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔
واقعات کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے 13 اگست کی شام کو پونچھ اور سدھنوتی کی والی بال ٹیموں کے مابین دوستانہ میچ منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی شو اور آتش بازی کا ایونٹ اناؤنس کر رکھا تھا۔ پونچھ اور سدھنوتی کے سٹار کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنے راولاکوٹ اور گردونواح کے مختلف علاقوں سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سٹیڈیم میں موجود تھی۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ میچ کو جان بوجھ کر طوالت دی جا رہی تھی، تاکہ مجمع آتش بازی کے وقت تک قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس دوران والی بال کھلاڑیوں نے بھی کھیلنے سے انکار کیا اور میچ مکمل نہیں ہو سکا۔
ایک عینی شاہد عمران نور نے رات گئے اپنے ویڈیو پیغام میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ چند نوجوان ’نعرہ کشمیر، جئے کشمیر‘ کا نعرہ لگا رہے تھے، جنہیں روکنے کی کوشش کی گئی، یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد معاملہ طول پکڑتا گیا۔
اس دوران ویڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سٹیج پر کھڑے ایک لوکل کونسلر نے مائیک سے ‘انڈیا کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘ کا نعرہ سپیکر پر بلند کرنا شروع کر دیا۔ اس نعرے کے جواب میں نوجوانوں نے ’کشمیر بنے گا خودمختار‘ اور پاکستان اور بھارت مخالف نعرے بازی شروع کر دی۔ جب ان نوجوانون کو روکنے کی کوشش کی گئی تو مجمعے کی اکثریت ان کے ساتھ ہو گئی اور وہ ریلی کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے سٹیڈیم کا چکر لگانے لگے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسٹیج پر موجود مقامی سیاسی قائدین، جن میں سابق وزیر حکومت سردار طاہر انور بھی شامل تھے، نے پولیس کو کہا کہ وہ نعرے بازی کرنے والے نوجوانون کو ماریں اور گرفتار کریں۔ تاہم ایس ایس پی نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ اس معاملے کو پولیس خود ہینڈل کر لے گی۔ اسی دوران ہلڑ بازی میں یہ مجمع سٹیج پر بھی چڑھ گیا۔
اس نعرے بازی کو روکنے اور مجمع کو منتشرکرنے کے لیے انتظامیہ نے دو مرتبہ سٹیڈیم کی لاٹئس بند کیں، تاکہ مجمع پروگرام خود بخود پرامن طریقے سے منتشر ہو جائے۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور بالآخر پولیس کو لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے مجمع کو منتشر کرنا پڑا۔ اس دوران لاٹھی چارج اور پتھراؤ کے نتیجے میں چند گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ پولیس نے موقعے سے ہی کچھ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ بعد ازاں شہر کے مختلف علاقوں میں ناکے لگا کر مزید گرفتاریاں کی گئیں۔
اب سوشل میڈیا پر اس واقعے کا ملبہ قوم پرست جماعتوں پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے، کہ انہوں نے جان بوجھ کر پروگرام کو خراب کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو وہاں شرارت کرنے کے لیے بھیجا۔ تاہم ابھی تک سامنے آنے والی ویڈیوز میں قوم پرست تنظیموں کا کوئی سرکردہ رہنما اس پروگرام میں نظر نہیں آیا۔ گرفتار نوجوانوں میں بھی ذرائع کے مطابق کسی تنظیم کا کوئی رکن شامل نہیں ہے۔ یہ سب عام نوجوان ہیں، جن کا کسی سیاسی تنظیم، یا جماعت سے کوئی باقاعدہ تعلق نہیں ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ سرکاری سطح پر جب سکولوں کے طلبہ کو مختلف پروگرامات کے لیے سڑکوں پر لایا جاتا ہےتو ان ریلیوں کی ویڈیوز بھی اکثر منظر عام پر آتی ہیں کہ وہاں طالبعلموں کی اکثریت جموں کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگاتی ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ قوم پرست جماعتوں نے انہیں سکھا کر بھیجا ہوتا ہے، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ یہ نعرے اس خطے کے مقبول عام نعرے ہیں۔
بالخصوص گزشتہ دو سال سے چلنے والی تحریک کی سوشل میڈیا پر مقبولیت نے یہ نعرے اب ہر بچے کی زبان تک پہنچا دیے ہیں۔ جب بھی بچوں کو نعرہ لگانے کے لیے کہا جائے گا وہ یہی نعرے لگائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے دیکھے اور سنے ہی یہی نعرے ہیں۔ گزشتہ سال آرمی پبلک سکول راولاکوٹ کے بچوں کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی تھی، جس میں وہ جموں کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ حالانکہ انہیں کسی اور معاملے میں نعرے لگانے کے لیے سڑک پر لایا گیا تھا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مجمع جمع کرنے کے لیے جب والی بال جیسے مقبول کھیل کا سہارا لیا جائے گا تو اس میں یہ تمیز ہو ہی نہیں سکتی کہ کس نظریے، سوچ، یا فکر کا بندہ وہ میچ دیکھنے کے لیے آئے گا۔ ایسے حالات میں نعروں کا رد عمل آنا راولاکوٹ میں ایک معمول ہے۔ تاہم سیاسی پروگرامات کے انعقاد کے لیے دوسروں کو برداشت کرنے والی سیاسی رواداری بھی راولاکوٹ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جب بھی کوئی تنظیم جتنی بھی متنازعہ نعرے بازی پر کوئی پروگرام کر رہی ہو، جس بھی تعداد میں ہو، اس کے پروگرام میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں گردنیں کاٹنے کے سرعام اعلانات کرنے والوں کو بھی جلسہ کرنے کے حق سے کسی نے کبھی نہیں روکا۔
انتظامیہ جب کوئی سرکاری تقریب منعقد کرتی ہے تو اسے سرکاری وسائل کا استعمال کر کے ایک مخصوص نظریے کی ترویج کرنے کا اختیار بھی نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ریاستی وسائل سارے نظریے رکھنے والوں کے اجتماعی ہیں۔ انتظامیہ جس ایکٹ اور آئین کے تابع ہے، اس کے مطابق پروگرامات اگر کرتی بھی ہے تو اسے سرکاری افسروں اور حکومتی وزراء تک محدود رہنا چاہیے۔
الحاق پاکستان کی حامی جماعتوں اور قیادت سمیت ممبران اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ کے ممبران کو بھی اپنے نظریات پر اتنا اعتماد ہے تو وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے اپنے ووٹرز کو لا کر اپنی جماعتوں کا اتحاد کر کے ایسے پروگرامات منعقد کیا کریں تاکہ کوئی ان میں اگر مداخلت کرے تو اس کا راستہ روکا جا سکے، اس کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ تاہم جب آپ جنرل پبلک کو والی بال کا میچ دیکھنے بلا کر ان پر نظریات اور نعرے مسلط کرنے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے رد عمل آئے گا۔
سب کو یاد ہو گا کہ چند روز قبل دریک عیدگاہ میں میراتھون اور دیگر کھیلوں کا ایونٹ منعقد کیا گیا۔ اس ایونٹ کو منعقد کروانے والوں میں مقامی فوجی افسر بھی تھے، قوم پرست اور ترقی پسند رہنما بھی تھے، الحاق پسند جماعتوں کے کارکن اور عام کھلاڑی بھی تھے۔ یہ ایونٹ ان لوگوں نے ایک کمیونٹی کے طور پر منعقد کروایا۔ اس ایونٹ میں پاکستان کا جھنڈا بھی لگا تھا، پاکستان کا قومی ترانہ بھی پڑھا گیا۔ پاکستان کے کھلاڑی بھی شامل تھے، بلکہ کھلاڑیوں میں فوجی کھلاڑی بھی شامل تھے۔ اختتامی پروگرام میں سرکاری نمائندوں نے پاکستان کے حق میں بھی باتیں کیں، لیکن کوئی ہلڑ بازی، جوابی نعرے بازی اور مقابلہ بازی نہیں ہوئی۔ اس لیے اگر کسی ایونٹ میں ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری منتظمین پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔
سیاسی کارکنوں کو البتہ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جب سرکاری سطح پر پروگرام منعقد کیا جا رہا ہے تو جو لوگ اس سے متفق نہیں ہیں، وہ اس جانب جانے سے ہی احتیاط برتیں۔ میرا خیال ہے کہ مخالف نظریات رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے 13 اگست کی شام سٹیڈیم کا رخ کیا بھی نہیں۔ تاہم جب معاشرہ ایک تحریک میں ہے اور مجموعی طور پر سماج کی ہر پرت پولیٹی سائز ہو چکی ہے، تو ایسے حالات میں انتظامیہ اور دیگر منتظمین کو بھی ایسا منتشرالخیال مجمع جمع کرنے سے احتیاط برتنی چاہیے، تاکہ اس کے بعد یہ گرفتاریوں اور مقدمات جیسی الجھن میں پڑ کر جو پروگرام تھا اس کی بھی مناسب تشہیر سے توجہ ہٹ جائے۔
آخر میں عرض ہے کہ تمام گرفتار نوجوانوں کو رہا کیا جائے۔ سیاسی قیادت، بالخصوص ممبران اسمبلی اور مختلف جماعتوں کے مقامی سربراہان مشترکہ طور پر مستقبل میں ایسے معاملات میں تصادم آرائی سے بچنے کے لیے مل بیٹھ کر کوڈ آف کنڈکٹ طے کریں، تاکہ تمام لوگ اپنے اپنے نظریات کا آزادانہ طور پر پرچار کر سکیں۔ گرفتاریوں، مقدمات اور تشدد کے ذریعے نوجوانوں کو دبانے کی کوشش پھر نئے تضادات کو جنم دے گی، جس سے حالات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑیں گے۔ امن اور بقائے باہمی کے لیے مقابلہ بازی کی بجائے خوشگوار مکالمے کی فضاء کا قیام ضروری ہے۔
Share this content:


