پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں جیئے کشمیر کا نعرہ جرم بن گیا ہے، سردار عمر نذیر

پاکستان کے زیر ناتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے علاقے راولاکوٹ کے انجمن تاجران وممبر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سردار عمر نذیر صدر نے کہا ہے کہ جئے کشمیر کا نعرہ جرم بن گیا ہے ۔

انہو ں نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر انتہائی احساس خطہ ہے۔ مسئلہ کشمیر اور متنازع ریاست ہونے کی وجہ سے یہاں افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اس خطے میں دو بڑے نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے سوا دو سال قبل عوامی حقوق تحریک کے آغاز میں ایس او پیز جاری کیے تھے کہ ھر دو نظریات کے حامل افراد پر ایک دوسرے کا احترام لازم ھے۔ چھوٹے موٹے ایشو ھوتے رہے لیکن الخمد اللہ اس بنیاد ھر دو نظریات کے حامل تحریک سے وابستہ افراد نے نظریاتی خیالات اور نعروں کو بالائے طاق رکھا جس کی وجہ سے جڑت قائم ھے۔ نظریات ، مسالک ، برادری اور علاقوں کی بنیاد پر انتشار پھیلا نے والے اس ریاست اور عوام کے دشمن ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی رواداری کا مظاہرہ سب پر لازم ہے ۔ ھم 78 سالوں سے ریاست کو خود مختار اور الحاق بنانے کےلئے آپس میں دست و گریباں ھو رہے ہیں جو درست عمل نہیں ۔ یو این او کے چارٹر کے مطابق غیر مشروط حق خودارادیت کے وقت ھر کشمیری کو حق حاصل ھو گا کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرے ۔جمہوری و اخلاقی رویوں کے تحت ھمیں اس بنیاد پر ھر دو طرف سے اٹھنے والی فساد و انتشار کی آواز کو مسترد کرنا چاہیے ۔ حق و سچ کی بنیاد پر جس طرف سے غلطی ھو اظہار کرنا چاہیے۔

تاجر رہنما نے کہا کہ 13 اگست کو جنہوں نے بھی پروگرام ترتیب دیا اگر وہ اعلانیہ جشن آزادی کا پروگرام انوانس کرتے تو بات درست تھی اور انکا اور پاکستان کے حامی پروگرام میں جاتے ۔ نظریہ خودمختار والے انکے پروگرام میں جاتے وہ اخلاقی اور قانونی طور پر درست عمل نہ ھوتا۔ یہاں آپ نے کھیل کے نام پر دعوت عام دے رکھی تھی ۔یہاں انہوں نے اور ضلعی انتظامیہ نے ملکر آیسے حالات پیدا کیے کہ عوام کے اندر تقسیم اور انتشار پیدا ھو۔ اور والی بال کھیل کے نام پر عوام کو اکھٹا کرکے رات 12 بجے انکے کیا مقاصد تھے ۔ سب کچھ عیاں ھو چکا ھے۔ ھمارا رب بہتر فیصلے کرنا والا ھے۔ ھم کوئی نظریاتی بات نہیں کریں گے ۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نظریات عوام پر جبراً ٹھونسے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس پروگرام میں قصور اور غلطی کی بات کی جائے تو اسٹیج پرجو نعرے بازی ھوئی کیا وہ جائز تھی ۔؟ کیا ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ درج ھوا ؟ھماری شناخت اور ھماری پہچان ھمارے ریاستی پرچم کی بے حرمتی کی گئی کیا انکے خلاف بھی مقدمہ درج ھوا؟ قانون سب کے لیے برابر ھونا چاھئے ۔ آپ اپنا فیلیئر چھپانے کے لیے خانہ پوری کرنے کے لیے بے گناہ عوام کو صرف اسلئے گرفتار کریں کہ انہوں نے جئے کشمیر کا نعرہ کیوں لگایا ؟ کیا آپ کے لئے جائز ھے کہ آپ جو مرضی نعرے بازی کریں ۔ آپ سیاسی نعرہ بازی کرنے پر لاٹھی چارج کریں تشدد کریں جائز ھے۔ ؟

انہوں نے کہا کہ ھمیں سچ کہنے میں کوئی عار نہیں ۔ایس ایس پی اور ڈی سی پونچھ نے موقع پر دباؤ کو برداشت کیا اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی وہ درست تھی ۔ دونوں آفیسران اعلیٰ ظرفی اور صبر کا مظاہرہ نہ کرتے تو بہت خون خرابہ ھوتا ۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا اس پروگرام سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی کوئی ھمارا ممبر اس میں شامل تھا۔ لیکن یہ عوام ھماری ھے خواہ اسکا تعلق کسی بھی نظریہ سے ھے۔ عوام کے ساتھ ظلم و نا انصافی اور جبر پر ھم خاموش نہیں رہ سکتے ۔ ھمارے لئے الحاق پاکستان اور خودمختار کشمیر کے ماننے والے دونوں قابل احترام ہیں اس بنیاد پر نفرت اور انتشار پھیلانے والے کشمیریوں کے دشمن ہیں ۔ ایسے منتشر ایونٹ کروا کر آپ نے ظالم و جابر اور کشمیریوں کے قاتل بھارت کو پروپیگنڈا کا موقع فراہم کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ضلعی انتظامیہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ آپ نے جن افراد کے خلاف بلاجواز مقدمات درج کیے ہیں اور جو سنگین دفعات شامل کی ہیں ۔ کسی صورت درست عمل نہیں ھے بلکہ آپکا یہ اقدام عوام کو شدید در عمل پر مجبور کرے گا ۔ کم عمر معصوم بچوں کی گرفتاریاں یقیناً کشمیریوں کے لئے ناقابل برداشت عمل ھے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ فی الفور گھروں میں چھاپے بند کیے جائیں فیملیز کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کرنا ھو گا اور تمام اسیران کو غیر مشروط رہا کیا جائے ۔ سفارش کی بنیاد پر پک اینڈ چوز کی پالیسی کسی صورت قبول نہیں ہے۔

Share this content: