کاشگل نیوز خصوصی رپورٹ
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر بھر میں تعلیمی اداروں کی خستہ حالی اور بنیادی سہولتوں کے فقدان نے نظامِ تعلیم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ حکومت کی مسلسل بے حسی اور غیر سنجیدگی نے طلبہ، والدین اور ماہرینِ تعلیم کو شدید مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔
ضلع مظفرآباد
زلزلہ 2005 کے بعد سینکڑوں اسکولز کی عمارتیں تا حال دوبارہ تعمیر نہ ہو سکیں۔ درجنوں تعلیمی ادارے عارضی شیلٹرز یا کرایہ کی عمارتوں میں چل رہے ہیں۔ بیشتر اسکولز میں سائنس لیبارٹریز اور کمپیوٹر رومز سرے سے موجود نہیں۔
ڈویژن پونچھ
پونچھ ڈویژن میں اساتذہ کی کمی شدید ہے۔ متعدد ہائی اسکولز میں ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کے اساتذہ تعینات نہیں، جس کے باعث طلبہ کو امتحانات کی تیاری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ والدین کے مطابق طلبہ پرائیویٹ ٹیوشنز کے بھاری اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
ضلع باغ
باغ میں اسکولز اور کالجز کی عمارتیں انتہائی خستہ حال ہیں۔ بیشتر ادارے بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہو کر خطرناک حالت میں آ گئے ہیں۔ طلبہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
ضلع حویلی
یہاں دور دراز دیہی علاقوں میں کئی اسکولز ایسے ہیں جہاں صرف ایک ہی استاد پورے پرائمری یا مڈل اسکول کو پڑھا رہا ہے۔ والدین کے مطابق حکومت محض دعوے کر رہی ہے مگر عملی اقدامات ندارد ہیں۔
ضلع نیلم
نیلم وادی میں شدید برفباری اور جغرافیائی رکاوٹوں کے باوجود تعلیمی اداروں کی صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ بیشتر اسکولز سال کے چھ ماہ بند رہتے ہیں، طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہو جاتا ہے۔
ضلع بھمبر، کوٹلی اور میرپور
ان اضلاع میں بنیادی سہولتوں کی کمی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں فرنیچر اور پینے کے صاف پانی تک کا فقدان ہے۔ والدین اور طلبہ کے مطابق حکومت کی عدم توجہی نے انہیں پرائیویٹ اداروں کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں بھاری فیسیں غریب خاندانوں کی برداشت سے باہر ہیں۔
ماہرینِ تعلیم کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیم کے بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو رہا ہے، جبکہ حقیقی ترقیاتی کام کاغذوں تک محدود ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل میں شرح خواندگی تیزی سے گرنے کے خدشات ہیں۔
والدین اور طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اسکولز و کالجز کی عمارتوں کی تعمیر نو، اساتذہ کی فراہمی اور جدید تعلیمی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، ورنہ تعلیمی بحران ایک بڑے المیے کی شکل اختیار کر لے گا۔
٭٭٭
Share this content:


