کاشگل نیوز تحقیقی رپورٹ
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع راولاکوٹ میں ایک مجوزہ “تاجر پروٹیکشن بل” نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
حکومت کے بعض حلقے اسے تاجروں کے لیے سہولت اور تحفظ کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) اور کئی تاجر رہنماؤں نے اسے عوامی تحریک کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
مجوزہ بل کی تفصیلات
ذرائع کے مطابق اس بل میں تجاویز دی گئی ہیں کہ دکانوں پر چھاپوں کے لیے واضح ایس او پیز وضع کیے جائیں، پہلی خلاف ورزی پر صرف وارننگ دی جائے، جرمانے اور سیلنگ کے لیے تدریجی نظام اپنایا جائے، انتظامیہ اور تاجر نمائندوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی قائم ہو اور چھوٹے دکانداروں کو قانونی معاونت فراہم کی جائے۔
علاوہ ازیں لائسنس اور ٹیکسوں کی آن لائن سہولت دینے کی شقیں بھی شامل ہیں۔
تاجروں کے بیانات
مقامی دکاندار محمد سلیم نے میڈیا سے گفتگو میں کہا: “ہم برسوں سے انتظامیہ کے بلاجواز چھاپوں اور بھاری جرمانوں کا شکار ہیں۔ اگر یہ بل واقعی اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے تو یہ تاجر برادری کے لیے ریلیف ثابت ہوگا۔”
راولاکوٹ بازار کمیٹی کے ایک اور تاجر رہنما حاجی منظور کا کہنا تھا: “اگر چھاپوں اور جرمانوں کے لیے ضابطہ طے ہو جائے تو کاروبار کو سکون ملے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس بل سے انصاف اور شفافیت آئے گی۔”
عوامی ایکشن کمیٹی کا ردِعمل
اس کے برعکس JAAC رہنما چوہدری بشیر احمد نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا: “یہ بل عوامی تحریک کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ حکومت عوامی مسائل جیسے بجلی ٹیرف اور آٹے کی قیمتوں پر توجہ دینے کے بجائے تاجروں کو بانٹنے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ ہم کسی صورت اس بل کو قبول نہیں کریں گے۔”
کمیٹی کے ایک اور رہنما نے کہا: “یہ بل اگر واقعی تاجروں کے لیے ہے تو پہلے اس کا متن عوام کے سامنے لایا جائے، اسمبلی میں پیش کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ بصورت دیگر یہ محض انتظامیہ کا ہتھکنڈہ ہے۔”
قانونی حیثیت پر سوال
واضح رہے کہ جموں وکشمیر حکومت کے سرکاری گزٹ میں اس وقت تک “تاجر پروٹیکشن بل” کے نام سے کوئی قانون یا نوٹیفکیشن شائع نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حلقے اس کی قانونی حیثیت اور مقصد پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
مستقبل کا لائحہ عمل
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اگر واقعی تاجر برادری کو تحفظ دینا چاہتی ہے تو سب سے پہلے بل کا متن جاری کرے، مشاورت کا عمل شروع کرے اور پھر اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کرے۔ بصورت دیگر یہ قدم اختلافات کو مزید ہوا دے گا اور احتجاجی تحریک میں کشیدگی بڑھا دے گا۔
Share this content:


