موجودہ عوامی حقوق تحریک بنیادی طور پر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی آواز بن چکی ہے۔
عام محنت کش تحریک میں متحرک عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور، ہوٹلوں اور دوکانوں پر کام کرنے والا محنت کش مستری، مزدور، چھوٹا کاروباری طبقہ، ٹرانسپورٹر، گاڑیوں پر کام کرنےوالے ڈرائیور، کنڈیکٹر۔،دیہاتوں میں کام کرنے والا کسان، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والا محنت کش، وکلاء ڈاکٹرز، طلباء اور سول سوسائٹی اس تحریک کو مزید طاقتور بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہےہیں۔
سماجی سائنس کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یہ تحریک مکمل طور پر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو رہی ہے جو حکمران طبقات اور مراعات یافتہ بیوروکریسی کے لیے درد سر بنتی جا رہی ہے۔ اس لیے حکمران طبقہ اور بیوروکریسی لینٹ آفیسران کی قیادت میں اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے سر جوڑ کر پالیسیاں بنانے میں مشغول ہیں۔ اور دوسری طرف حق ملکیت اور حق حکمرانی کے پروگرامات میں عوامی جوش و خروش اس بات کا اظہار ہے کہ یہ تحریک اپنی منزل مقصود کے قریب تر ہے۔
ایسے میں حکمران طبقات کی طرف سے ریزرو رینجرز اہلکاران کی مزید نفری مختلف اضلاع میں ڈیپیوٹ کرنا آگ پر تیل کا کام کرے گی۔ حکمران طبقات اور مراعات یافتہ بیوروکریسی کو لینٹ آفیسران کے ہاتھوں اپنی عوام کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بجائے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چائیے۔ اور انہیں اس خوش فہمی کا شکار بھی نہیں ہونا چائیے کہ پولیس کی مزید نفری یا پیراملٹری فورس کو استعمال کرتے ہوئے تحریک کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
پولیس اور انتظامیہ کے عام محنت کش کی توقعات بھی اس تحریک کے ساتھ اسی طرح بدرجہ اتم موجود ہیں جس طرح دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کش نے اپنی توقعات اس تحریک سے وابسطہ کر رکھی ہیں۔ حکمران طبقات اور پالیسی سازوں کو اس طرح کی حکمت عملی ترتیب دینے سے پہلے اپنے پڑوس میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور حالیہ دنوں انڈونیشیاء میں رونماء ہونے والے واقعیات پر ضرور غور کرنا چاہئیے۔
اسی طرح وہاں کے حکمران طبقات اور بیوروکریسی ہٹ دھرمی کا شکار تھی۔ تب وہاں کی عوام کا غم و غصہ انہیں پانی میں تنکے کی مانند بہا کر لے گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حکمران طبقات نے عوام کے ساتھ جنگ چھیڑی تو شکست ان کا مقدر بنی۔ میری نام نہاد حکمرانوں سے گزارش ہے کہ فوری طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ٣٨ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل درآمد کریں۔ ورنہ دیر ہو جائے گی۔
٭٭٭
Share this content:


